Request
Zyada sy Zyada like [g+1] kr ky post ko Google pr recomment kry Shukria
>>>>***<<<<
خیرپور+گمبٹ – سندھ کے عظیم صوفی شاعر حضرت سچل سرمست کا 187 واں عرس درازہ شریف 14 رمضان المبارک کو شروع ہوگا۔ انتظامات کیلئے ای ڈی او ریونیو احمد علی قریشی کی صدارت میں سچل یادگار کمیٹی کی سب کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں صوفی راگ گانے والوں، ادیبوں، شاعروں اور نامور فنکاروں کی فہرست کو حتمی شکل دی گئی۔ سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ درگاہ پر پھولوں کی چادر چڑھا کر عرس کا افتتاح کریں گے۔ ثقافت اور سیاحت کے محکمے کی طرف سے نیشنل ادبی کانفرنس ہوگی۔ اجلاس میں عابدہ پروین، حمیرا چنہ، احمد مغل، صوفی شاعروں سہراب فقیر، موٹن شاہ، فقیر سوہنو، شمن فقیر، زاہدہ پروین، شاہدہ پروین اور دیگر فنکاروں کو دعوت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
***پیدائش : 1739
وفات : 1242 ھجری
سندھی زبان کے مشہور شاعر جو عرف عام میں ہفت زبان شاعر کہلاتے ہیں کیوں کہ آپ کا کلام سات زبانوں میں ملتا ہے۔ سچل سرمست کی پیدائش 1739ء میں سابق ریاست خیرپور کے چھوٹے گاؤں درازا میں ایک مذہبی خاندان میں ہوئی۔ان کا اصل نام تو عبدالوہاب تھا مگر ان کی صاف گوئی کو دیکھ کر لوگ انہیں سچل یعنی سچ بولنے والا کہنے لگے۔ بعد میں ان کی شاعری کے شعلے دیکھ کر انہیں سرمست بھی کہا گیا۔ سچل سرمست کی پیدائش سندھ کے روایتی مذہبی گھرانے میں ہوئی مگر انہوں نے اپنی شاعری میں اپنی خاندانی اور اس وقت کی مذہبی روایات کو توڑ کر اپنی محفلوں میں ہندو مسلم کا فرق مٹا دیا۔ان کے عقیدت مندوں میں کئی ہندو بھی شامل ہیں۔ سچل سرمست تصوف میں وحدت الوجود کے قائل تھے۔
شاہ عبدالطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی زندگیوں میں ستر برس کا فاصلہ ہے۔ سچل ستر برس بعد جب صوفیانہ شاعری میں آیا تو ان کی وجدانیت بھی منفرد تھی۔ان کے ساتھ صوفی ازم کی موسیقی نے بھی سرمستی کا سفر کیا اور شاہ بھٹائی کے نسبتاً دھیمے لہجے والے فقیروں سے سچل کے فقیروں کا انداز بیان منفرد اور بیباک تھا۔
سچل سرمست نے سندھ کے کلہوڑا اور تالپور حکمرانوں کے ایسے دور اقتدار میں زندگی بسر کی جب مذہبی انتہاپسندی اپنے عروج پر تھی۔انہوں نے اپنے آس پاس مذہبی نفرتوں کو دیکھ کر سندھی میں کہا:
مذہبن ملک میں ماٹھو منجھایا، شیخی پیری بیحد بھلایا۔
جس کا سادہ ترجمہ اس طرح ہے کہ مذہبوں نے ملک میں لوگوں کو مایوس کیا اور شیخی، پیری نے انہیں بھول بھلیوں میں ڈال دیا ہے۔
سچل سرمست نوّے برس کی عمر میں 14 رمضان 1242ء ھجری میں وفات کر گئے۔وہ شادی شدہ تھے مگر ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔انہوں نے بنیادی عربی فارسی کی تعلیم اپنے خاندان کے بزرگ اپنے چچا مرشد اور سسر خواجہ عبدالحق سے حاصل کی۔سچل سرمست کا کلام سندھی، اردو، عربی، فارسی اور سرائیکی میں موجود ہے۔ انہیں اور ان کا کلام سنانے والے فقیروں کو سندھ میں ایک منفرد مقام اس لیے بھی حاصل ہے کہ کسی بھی محفل میں جب بھی مذہبی انتہا پسندی کو للکارا جاتا ہے تو آج بھی سہارا سچل کا لیا جاتا ہے۔
یہ معلومات وکیپیڈیا سے لی گئی ہے
***
Sachal Sarmast (1739-1829) (Sindhi: سچلُ سرمستُ ) (Urdu: سچل سرمست ) was a renowned Sindhi Sufi poet during the Kalhora era. Abdul Wahab was his real name and “Sachal” was the name he used in his own poetry. Sachu means truth in Sindhi and Sachalu means truthful. Sarmast means mystic in Sindhi and Urdu. Suchal Sarmast literally means ‘truthful mystic’. Sachal Sarmast was an ardent follower of Wahdat-ul-Wujood, an Islamic Philosophy synonymous with Hamah Oost.
Poetry of Sachal Sarmast
The brave speak the truth
Let others like it or not;
For the talk of false friendship we care not.
“Sarmast” (pronounced Sarimastu in Sindhi, meaning leader of the ‘intoxicated’ or ‘mad’) is the title often used by his followers. The title, given to him first by Agha Sufi, a compiler of his Risalo (collection of poems), refers to the fact that Sachal was intoxicated by love.
Sachal Sarmast was an ardent follower of Wahdat-ul-Wujood (unity of existence), an Islamic Philosophy synonymous with Hamah Oost (all from One), and Advaita Vedanta philosophy. The concept of Hamah Oost (all from One) is similar to that found in Advaita Vedanta philosophy. Sachal says (translation by Gul Agha):
There is no other Beloved,
There is only what I see everyday!
I was sitting by the roadside,
When the path became clear to me;
In the palace the Beloved I saw,
a glimpse the Beauty gave;
Through the window was the vision,
a glimpse the Beauty saw;
Take care of the ignorant;
Our bond was made for a reason.
I truly recognized the Lord,
My companion He sure became;
‘He is the Creator of all
and intrinsic to all’,
All doubts in this perished;
With happiness shall I carry
Sisters, if your trust I have.
All the journeys, all the manifestations
The Dear One’s own;
Friend ‘Sachal’ know this correctly,
Slumber has created illusions.
Like other sufis of Sindh, Sachal made no distinctions based on religion, but regarded love as the path to spirituality:
‘Tis not in religion I believe
‘Tis love I live in.
When love comes to you.
Say Amen!
‘Tis not with the infidel
that love resides
Nor with the faithful.
Rather, Sachal advocated self-realization as the path to liberation. Sachal says (translation by Jethmal Parsram Gulrajani):
O friend! this is the only way to learn
the secrets of the path:
Follow not the road of another, however
virtuous he may be.
Rend the veil over thee,
Searcher expose thy being.
Books on Sachal
Study of Mysticism in Darazi:
School of Sufi Thought:
Author: Dr.Sakhi Qabool Muhammad Faruqi: -Sajjada Nashin.: Publisher: Darazi Publications:
Priceless Pearls Picked from Wonderous Waters of Wisdom:
Author: Dr.Sakhi Qabool Muhammad Faruqi – Sajjada Nashin.:
SachalSarmast:
Edited by:Tanveer Abbasi: Publisher: Sachal Chair:
SachalJo Kalam urf Aashiqi Ilham (Sindhi):
Publisher: Sachal Chair:
Muntakhab alam Sachal Sarmast (Urdu):
Publisher: Sachal Chair:
Sachal Sarmast (Sindh):
Author – Jethmal Parsram : Publisher-Sachal Chair: Sarmast(Sindhi) Arrangedby: Muhammad Ali Hadaad Publisher: Sachal Sarmast Yadgar Committee.
Sachal Sarmast Ja Talib (Sindhi):
Author – Dr.Nawaz Ali Shauq: Publisher-Sachal Chair
0 comments:
Post a Comment