Request

Zyada sy Zyada like [g+1] kr ky post ko Google pr recomment kry Shukria

29 Mar 2014

Intikhab




وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا
اک جاگنے والا میری تقدیر میں ہوتا

اک عالم خوبی ہے میسر مگر اے کاش
اس گل کا علاقہ میری جاگیر میں ہوتا

اس آہوئے رم خوردہ و خوش چشم کی خاطر
اک حلقہ خوشبو میری زنجیر میں ہوتا

مہتاب میں اک چاند سی صورت نظر آتی
نسبت کا شرف سلسلۂ میر میں ہوتا

مرتا بھی جو اس پر تو اسے مار کے رکھتا
غالب کا چلن عشق کی تقصیر میں ہوتا

اک قامتِ زیبا کا یہ دعوی ہے کہ وہ ہے
ہوتا تو میرے حرفِ گرہ گیر میں ہوتا

افتخار عارف







تیرے ہی رنگ اُترتے چلے جائیں مجھ میں
خود کو لکھوں تری تصویر بنائے جاؤں

جس کو ملنا نہیں پھر اس سے محبّت کیسی
سوچتا جاؤں مگر دل میں بسائے جاؤں

تُو اب اس کی ہوئی جس پہ مجھے پیار آتا ہے
زندگی آ تجھے سینے سے لگائے جاؤں

یہی چہرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
ہر نئے حرف میں جاں اپنی سمائے جاؤں

جان تو چیز ہے کیا رشتۂ جاں سے آگے
کوئی آواز دیئے جائے میں آئے جاؤں

شاید اس راہ پہ کچھ اور بھی راہی آئیں
دھوپ میں چلتا رہوں سائے بچھائے جاؤں

اہل ِ دل ہوں گے تو سمجھیں گے سخن کو میرے
بزم میں آ ہی گیا ہوں تو سنائے جاؤں

اختر حسین جعفری

                                                        
                                                      


ایبسٹریکٹ آرٹ 

ایبسٹریکٹ آرٹ کی دیکھی تھی نمائش میں نے
کی تھی ازراہِ مروّت بھی ستائش میں نے
آج تک دونوں گناہوں کی سزا پاتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ کیا دیکھا تو شرماتا ہوں
صرف کہہ سکتا ہوں اِتنا ہی وہ تصویریں تھیں
یار کی زلف کو سلجھانے کی تدبیریں تھیں
ایک تصویر کو دیکھا جو کمالِ فن تھی
بھینس کے جسم پر اک اونٹ کی سی گردن تھی
ٹانگ کھینچی تھی کہ مسواک جسے کہتے ہیں
ناک وہ ناک خطرناک جسے کہتے ہیں
نقشِ محبوب مصوّر نے سجا رکھا تھا
مجھ سے پوچھو تو تپائی پہ گھڑا رکھا تھا
یہ سمجھنے کو کہ یہ آرٹ کی کیا منزل ہے
ایک نقّاد سے پوچھا جو بڑا قابل ہے
سبزہء خط میں وہ کہنے لگا رعنائی ہے
میں یہی سمجھا کہ ناقص مری بینائی ہے
بولی تصویر جو میں نے اُسے الٹا پلٹا
میں وہ جامہ ہوں کہ جس کا نہیں سیدھا الٹا
اُس کو نقاد تو اِک چشمہء حیواں سمجھا
میں اسے حضرتِ مجنوں کا گریباں سمجھا
ایک تصویر کو دیکھا کہ یہ کیا رکھا ہے
ورقِ صاف پہ رنگوں کو گرا رکھا ہے
آڑی ترچھی سی لکیریں تھیں وہاں جلوہ فگن
جیسے ٹوٹے ہوئے آئینے پہ سورج کی کرن
بولا نقاد جو یہ آرٹ ہے تجریدی ہے
آرٹ کا آرٹ ہے تنقیدی کی تنقیدی ہے
تھا کیوب ازم میں کاغذ پہ جو اک رشکِ قمر
مجھ کو اینٹیں نظر آتی تھیں اُسے حسنِ بشر
بولا نقّاد نظر آتے یہی کچھ ہم تم!
خُلد میں حضرتِ آدم جو نہ کھاتے گندم
ابسٹریکٹ آرٹ بہر طور نمایاں نکلا
“قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا“
وہ خدوخال کہ ثانی نہیں جن کا کوئی آج
بات یہ بھی ہے کہ ملتا نہیں رنگوں کا مزاج
دیر تک بحث رہی مجھ میں اور اس میں جاری
تب یہ ثابت ہوا ہوتی ہے یہ اِک بیماری
اس کو کیوب ازم کا آزار کہا کرتے ہیں
اس کے خالق جو ہیں بیمار رہا کرتے ہیں
ایبسٹریکٹ آرٹ کے ملبے سے یہ دولت نکلی
جس کو سمجھا تھا انناس وہ عورت نکلی
ایبسٹریکٹ آرٹ کی اس چیز پہ دیکھی ہے اساس
“تن کی عریانی سے بہتر نہیں دنیا میں لباس“
اس نمائش میں جو اطفال چلے آتے تھے
ڈر کے ماؤں کے کلیجوں سے لپٹ جاتے تھے
ایبسٹریکٹ آرٹ کا اِک یہ بھی نمونہ دیکھا
فریم کاغذ پہ تھا کاغذ جو تھا سُونا دیکھا
وہ ہمیں کیسے نظر آئے جو مقسوم نہیں
“لوگ کہتے ہیں کہ ہے پر ہمیں معلوم نہیں“
ڈر سے نقادوں کے اِس آرٹ کو یوں سمجھے تھے ہم
“شاہدِ ہستئ مطلق کی کمر ہے عالم“
الغرض جائزہ لے کر یہ کیا ہے انصاف
آج تک کر نہ سکا اپنی خطا خود میں معاف
میں نے یہ کام کیا سخت سزا پانے کا
یہ نمائش نہ تھی اِک خواب تھا دیوانے کا
کیسی تصویر بنائی مرے بہلانے کو
اب تو دیوانے بھی آنے لگے سمجھانے کو
از سید محمد جعفری


0 comments:

Post a Comment