ن م راشد – ایک تعارف
نذر محمد راشد عام طور پر جو کہ ن م راشد کے نام سے جانے جاتے ھیں 1910 میں آکال گڑھ ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے (موجودہ علی پور چٹھہ جو کہ اب پاکستان میں ہے) ابتدائی تعلیم آکال گڑھ اور اعلٰی تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی- اردو اور فارسی سے محبت انہیں اپنے والد اور دادا سے وراثت میں ملی- غالب، اقبال، حافظ شیرازی اور سعدی سے راشد کا تعارف انکے والد فضل الٰہی چشتی کے ہی طفیل ہوا- گورنمنٹ کالج، لاہور میں تعلیم کے دوران راشد “راوی” کے اڈیٹر مقرّر ہوئے، بعد میں کچھ وقت کے لئے وہ تاجور نجیب آبادی کے رسالے شاہکار کی بھی ادارت کرتے رہے- کچھ عرصہ ملتان میں کمشنر آفس میں سرکاری ملازمت بھی کی اور اسی دوران راشد نے اپنی پہلی آزاد نظم “جراءت پرواز” لکھی جو کہ انکے پہلے مجموعے “ماوراء” میں شامل ہے – ضمنا” ایک ذکر کہ پاکستان کے ایک بہت بڑے اشاعتی ادارے کا نام بھی ان کے اسی مجموعے کے نام سے متاثر ہو کر رکھا گیا-
1939 میں راشد آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے اور کچھ عرصے بعد انہیں پروگرام ڈائریکٹر بنا دیا گیا اور تقسیم کے بعد ریڈیو پاکستان میں وہ ریجنل ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کرتے رہے- کچھ عرصہ انہیں پاکستان کی طرف سے اقوام ِمتحدّہ کے صدر دفتر نیویارک میں بھی خدمات انجام دینے کا موقعہ ملا – ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے انگلستان میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور اکتوبر 9 ، 1975 کو وہیں انتقال کیا – ان کی وصیّت کے مطابق انہیں ایک فرنس میں جلا دیا گیا- (راشد کے بعد دوسری شخصیت عصمت چغتائی کو بھی انکی وصیّت کے مطابق آگ میں جلایا گیا)
راشد نے اپنے شاعر ہونے کا پتہ اپنے سکول دور میں ہی دے دیا تھا، تب وہ ردیف اور قافیہ میں پابند تھے- بعد میں انہوں نے ردیف اور قافیہ سے بے نیاز ہو کر جو شاعری کی وہ انہی کا خاصہ بن کر رہ گئ ان سے پہلے اور ان کے بعد ایسی آزاد شاعری کی اردو ادب میں مثال نہیں ملتی – اس ضمن میں ایک واقعہ جو کہ ان کے آل انڈیا ریڈیو کے زمانے کا ہے، قابل ذکر ہے – راشد نے اس وقت کے ایک بہت بڑے شاعر یاس یگانہ چنگیزی کو انٹرویو کے لیے بلایا تو کچھ دوست احباب شاعری پر گفتگو کر رہے تھے اور یاس یگانہ چنگیزی صاحب چونکہ آزادنظم کے سخت خلاف تھے اسلیے آزاد نظم کی مخالفت میں کافی لے دے کر رہے تھے کہ یکایک کسی نے ان سے کہا کہ راشد بھی آزاد نظم کہتے ہیں آپ ان سے ان کی نظم سنیں – راشد نے اپنی نظم سنائی تو یگانہ نے اٹھ کر انہیں گلے سے لگا لیا اور کہا کہ اگر یہ آزاد نظم ہے تو صرف تمہیں ہی آزاد نظم کہنے کا حق حاصل ہے – اس واقعے کی ایک خاص اہمیت ہے اور وہ یہ کہ راشد کی طرز کی آزاد نظم نہ تو کسی نے ان سے پہلے کہی اور نہ ھی بعد میں- یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ راشد کا ہر مصرع وزن میں ہے اور پورے کلام میں ایک بھی ایسا مصرع نہیں جو وزن سے خارج ہو – جبکہ آج کل کی آزاد نظم کو مادر پدر آزاد سمجھا جاتا ہے اور اس میں وزن کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا -
راشد کی شاعری عام شاعری نہیں اور یہ شاعری عام قارئین کے ذوق سے بھی ھٹ کر ہے – راشد کے ہاں جو استعارے اور تلمیحات استعمال ھوئی ھیں وہ نامانوس اور غیر روائیتی ہیں اسی لیے اکثر، عام قاری کے لیے انکا کلام نا فہم بھی ھو جاتا ہے – راشد کی شاعری اپنی ہم عصر فرانسیسی اور انگریزی شاعری سے متاثر ہے لیکن سب سے زیادہ انکی شاعری اپنی ہم عصر فارسی شاعری سے متاثر ہے- ان کی تلمیحات اور استعارات کی جڑیں براہ راست انکی ہم عصر فارسی شاعری سے جڑی ہوئی نظر آ تی ہیں – اس لیے انکی شاعری کو سمجھنے کے لیے انکی ہم عصر فارسی شاعری کا مطالعہ کرنا مدد گار ثابت ہوگا -
انکی چار کتب کے نام مندرجہ ذیل ہیں -
- ماوراء
- ایران میں اجنبی
- لا=انسان
- گماں کا ممکن
- ماوراء
- ایران میں اجنبی
- لا=انسان
- گماں کا ممکن
اسرافیل کی موت -ن م راشد نے یہ نظم ایوب کے مارشل لا کے دور میں تحریر و تقریر کی آزادی پر پابندی لگنے کے بعد کے تناظر میں لکھی تھی -
اسرافیل کی موت – از ن م راشد
مرگِ اسرافیل پر آنسو بہاؤ
وہ خداؤں کا مقرّب، وہ خداوندِکلام
صوت انسانی کی روح ِجاوداں
آسمانوں کی ندائے بے کراں
آج ساکت مثل ِ حرفِ ناتمام
مرگِ اسرافیل پر آنسو بہاؤ!
آؤ، اسرافیل کے اس خوابِ بے ہنگام پر آنسو بہائیں
آرمیدہ ہے وہ یوں قرنا کے پاس
جیسے طوفاں نے کنارے پر اگل ڈالا اسے
ریگ ساحل پر، چمکتی دھوپ میں، چپ چاپ
اپنے صور کے پہلو میں وہ خوابیدہ ہے!
اس کی دستار، اس کے گیسو، اس کی ریش
کیسے خاک آلودہ ہیں!
تھے کبھی جن کی تہیں بود و نبود!
کیسے اس کا صور، اس کے لب سے دور،
اپنی چیخوں، اپنی فریادوں میں گم
جھلملا اٹھتے تھے جس سے دیر و زود!
مرگِ اسرافیل پر آنسو بہاوء
وہ مجسّم ہمہمہ تھا، وہ مجسّم زمزمہ
وہ ازل سے تا ابد پھیلی ھوئی غیبی صداؤں کا نشاں!
مرگِ اسرافیل سے
حلقہ در حلقہ فرشتے نوحہ گر،
ابن آدم زلف در خاک و نزاز
حضرت یزداں کی آنکھیں غم سے تار
آسمانوں کی صفیر آتی نہیں
عالم لاہوت سے کوئی نفیر آتی نہیں!
مرگِ اسرافیل سے
اس جہاں پر بند آوازوں کا رزق
مطربوں کا رزق، اور سازوں کا رزق
اب مغنّی کس طرح گائے گا اور گائے کا کیا
سننے والوں کے دلوں کے تار چب!
اب کوئی رقاص کیا تھرکے گا، لہرائے گا کیا
بزم کے فرش و در و دیوار چپ!
اب خطیبِ شہر فرمائے گا کیا
مسجدوں کے آستان و گنبد و مینار چپ!
فِکر کا صیّاد اپنا دام پھیلائے گا کیا
طائرانِ منزل و کہسار چپ!
مرگِ اسرافیل ہے
گوش شنوا کی، لبِ گویا کی موت
چشم ِبینا کی، دلِ دانا کی موت
تھی اسی کے دم سے درویشوں کی ساری ہاؤ ہو
ــــــــ اہل دل کی اہل دل سے گفتگو
اہل دل ــــــــــ جو آج گوشہ گیر و سرمہ در گلو!
اب تنانا ہو بھی غائب اور یارب ہا بھی گم
اب گلی کوچوں کی ہر آوا بھی گم!
یہ ہمارا آخری ملجا بھی گم!
مرگِ اسرافیل سے،
اس جہاں کا وقت جیسے سو گیا، پتھرا گیا
جیسے کوئی ساری آوازوں کو یکسر کھا گیا،
ایسی تنہائی کہ حسن تام یاد آتا نہیں
ایسا سنّاٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیں!
مرگِ اسرافیل سے
دیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھی
زباں بندی کے خواب!
جس میں مجبوروں کی سرگوشی تو ہو
اس خداوندی کے خواب!۔
وہ خداؤں کا مقرّب، وہ خداوندِکلام
صوت انسانی کی روح ِجاوداں
آسمانوں کی ندائے بے کراں
آج ساکت مثل ِ حرفِ ناتمام
مرگِ اسرافیل پر آنسو بہاؤ!
آرمیدہ ہے وہ یوں قرنا کے پاس
جیسے طوفاں نے کنارے پر اگل ڈالا اسے
ریگ ساحل پر، چمکتی دھوپ میں، چپ چاپ
اپنے صور کے پہلو میں وہ خوابیدہ ہے!
اس کی دستار، اس کے گیسو، اس کی ریش
کیسے خاک آلودہ ہیں!
تھے کبھی جن کی تہیں بود و نبود!
کیسے اس کا صور، اس کے لب سے دور،
اپنی چیخوں، اپنی فریادوں میں گم
جھلملا اٹھتے تھے جس سے دیر و زود!
وہ مجسّم ہمہمہ تھا، وہ مجسّم زمزمہ
وہ ازل سے تا ابد پھیلی ھوئی غیبی صداؤں کا نشاں!
حلقہ در حلقہ فرشتے نوحہ گر،
ابن آدم زلف در خاک و نزاز
حضرت یزداں کی آنکھیں غم سے تار
آسمانوں کی صفیر آتی نہیں
عالم لاہوت سے کوئی نفیر آتی نہیں!
اس جہاں پر بند آوازوں کا رزق
مطربوں کا رزق، اور سازوں کا رزق
اب مغنّی کس طرح گائے گا اور گائے کا کیا
سننے والوں کے دلوں کے تار چب!
اب کوئی رقاص کیا تھرکے گا، لہرائے گا کیا
بزم کے فرش و در و دیوار چپ!
اب خطیبِ شہر فرمائے گا کیا
مسجدوں کے آستان و گنبد و مینار چپ!
فِکر کا صیّاد اپنا دام پھیلائے گا کیا
طائرانِ منزل و کہسار چپ!
گوش شنوا کی، لبِ گویا کی موت
چشم ِبینا کی، دلِ دانا کی موت
تھی اسی کے دم سے درویشوں کی ساری ہاؤ ہو
ــــــــ اہل دل کی اہل دل سے گفتگو
اہل دل ــــــــــ جو آج گوشہ گیر و سرمہ در گلو!
اب تنانا ہو بھی غائب اور یارب ہا بھی گم
اب گلی کوچوں کی ہر آوا بھی گم!
یہ ہمارا آخری ملجا بھی گم!
اس جہاں کا وقت جیسے سو گیا، پتھرا گیا
جیسے کوئی ساری آوازوں کو یکسر کھا گیا،
ایسی تنہائی کہ حسن تام یاد آتا نہیں
ایسا سنّاٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیں!
دیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھی
زباں بندی کے خواب!
جس میں مجبوروں کی سرگوشی تو ہو
اس خداوندی کے خواب!۔
حَسَن کوزہ گر- – - از ن م راشد
جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں!
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
کی دکّان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں
جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں!
یہ وہ دور تھا جس میں میں نے
کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب
پلٹ کر نہ دیکھا ــــــــــ
وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے
گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں
وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے
“حسن کوزہ گر اب کہاں ھے
وہ ہم سے خود اپنے عمل سے
خداوند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں!”
جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا
کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے
تغاروں میں مٹی
کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ہوتا تھا میں
سنگ بستہ پڑی تھی
صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں
مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارے
شکستہ پڑے تھے
میں خود، میں حسن کوزہ گر پا بہ گِل خاک بر سر برہنہ
سر چاک ژولیدہ مو، سر بزانو
کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے
گل و لا سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا
جہاں زاد، نو سال پہلے
تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
کہ میں نے، حسن کوزہ گر نے
تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں
میں دیکھی ھے وہ تابناکی
کہ جس سے مرے جسم و جاں، ابرو مہتاب کا
رہگزر بن گئے تھے
جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات
وہ رود دجلہ کا ساحل
وہ کشتی وہ ملّاح کی بند آنکھیں
کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے
ایک ہی رات وہ کہربا تھی
کہ جس سے ابھی تک ھے پیوست اسکا وجود
اس کی جاں اس کا پیکر
مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا
حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ہے!
جہاں زاد اس دور میں روز، ہر روز
وہ سوختہ بخت آکر
مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گِل سر بزانو
تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی ــــــــــ
(وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!)
وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی
حسن کوزہ گر ہوش میں آ”
حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے
حسن، اے محبّت کے مارے
محبّت امیروں کی بازی،
“حسن، اپنے دیوار و در پر نظر کر
مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے
کسی ڈوبتے شخص کو زیرگرداب کوئی پکارے!
وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں
مگر میں حسن کوزہ گر شہر اوہام کے ان
خرابوں کا مجذوب تھا جن
میں کوئی صدا کوئی جنبش
کسی مرغ پرّاں کا سایہ
کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا!
جہاں زاد، میں آج تیری گلی میں
یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں
ترے در کے آگے کھڑا ہوں
سرد مو پریشاں
دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاہیں
مجھے آج پھر جھانکتی ہیں
زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ہے جس پہ مینا و جام و سبو
اور فانوس و گلداں
کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
میں انساں ہوں لیکن
یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے!
حسن کوزہ گر آج اک تودہ ِخاک ہے جس
میں نم کا اثر تک نہیں ہے
جہاں زاد بازار میں صبح عطّار یوسف
کی دکّان پر تیری آنکھیں
پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں
ان آنکھوں کی تابندہ شوخی
سے اٹھی ہے پھر تودہ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش
یہی شاید اس خاک کو گِل بنا دے!
تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ھے جہاں زاد لیکن
تو چاھے تو بن جاؤں میں پھر
وہی کوزہ گر جس کے کوزے
تھے ھر کاخ و کو اور ہر شہر و قریہ کی نازش
تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں
تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
تو چاھے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے اظہار ِ فن کے سہاروں کی جانب
کہ میں اس گل و لا سے ، اس رنگ و روغن
سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
دلوں کے خرابے ھوں روشن!
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں!
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
کی دکّان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں
جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں!
یہ وہ دور تھا جس میں میں نے
کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب
پلٹ کر نہ دیکھا ــــــــــ
وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے
گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں
وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے
“حسن کوزہ گر اب کہاں ھے
وہ ہم سے خود اپنے عمل سے
خداوند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں!”
جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا
کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے
تغاروں میں مٹی
کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ہوتا تھا میں
سنگ بستہ پڑی تھی
صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں
مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارے
شکستہ پڑے تھے
سر چاک ژولیدہ مو، سر بزانو
کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے
گل و لا سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا
جہاں زاد، نو سال پہلے
تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
کہ میں نے، حسن کوزہ گر نے
تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں
میں دیکھی ھے وہ تابناکی
کہ جس سے مرے جسم و جاں، ابرو مہتاب کا
رہگزر بن گئے تھے
جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات
وہ رود دجلہ کا ساحل
وہ کشتی وہ ملّاح کی بند آنکھیں
کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے
ایک ہی رات وہ کہربا تھی
کہ جس سے ابھی تک ھے پیوست اسکا وجود
اس کی جاں اس کا پیکر
مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا
حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ہے!
جہاں زاد اس دور میں روز، ہر روز
وہ سوختہ بخت آکر
مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گِل سر بزانو
تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی ــــــــــ
(وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!)
وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی
حسن کوزہ گر ہوش میں آ”
حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے
حسن، اے محبّت کے مارے
محبّت امیروں کی بازی،
“حسن، اپنے دیوار و در پر نظر کر
مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے
کسی ڈوبتے شخص کو زیرگرداب کوئی پکارے!
وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں
مگر میں حسن کوزہ گر شہر اوہام کے ان
خرابوں کا مجذوب تھا جن
میں کوئی صدا کوئی جنبش
کسی مرغ پرّاں کا سایہ
کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا!
یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں
ترے در کے آگے کھڑا ہوں
سرد مو پریشاں
دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاہیں
مجھے آج پھر جھانکتی ہیں
زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ہے جس پہ مینا و جام و سبو
اور فانوس و گلداں
کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
میں انساں ہوں لیکن
یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے!
حسن کوزہ گر آج اک تودہ ِخاک ہے جس
میں نم کا اثر تک نہیں ہے
جہاں زاد بازار میں صبح عطّار یوسف
کی دکّان پر تیری آنکھیں
پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں
ان آنکھوں کی تابندہ شوخی
سے اٹھی ہے پھر تودہ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش
یہی شاید اس خاک کو گِل بنا دے!
تو چاھے تو بن جاؤں میں پھر
وہی کوزہ گر جس کے کوزے
تھے ھر کاخ و کو اور ہر شہر و قریہ کی نازش
تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں
تو چاھے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے اظہار ِ فن کے سہاروں کی جانب
کہ میں اس گل و لا سے ، اس رنگ و روغن
سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
دلوں کے خرابے ھوں روشن!
اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
میں کہاں تک بھولوں؟
زور ِ مَے تھا، کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی
کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا _____
تجھے حیرت نہ ہوئی!
کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئ شیشوں پر
اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت __
تجھے حیرت نہ ہوئی!
اے جہاں زاد،
میں کوزوں کی طرف، اپنے تغاروں کی طرف
اب جو بغداد سے لوٹا ہوں،
تو مَیں سوچتا ہوں _____
سوچتا ہوں: تو مرے سامنے آئینہ رہی
سر ِ بازار، دریچے میں، سر ِبستر ِ سنجاب کبھی
تو مرے سامنے آئینہ رہی،
جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے
اپنی ہی صورت کے سوا
اپنی تنہائی ِ جانکاہ کی دہشت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے
اِس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں
اب ایک ہی صورت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟
لوح آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے
خط کیوں نہ لکھوں؟
اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
مجھے پھر لائے گی؟
وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟
وقت اِک ایسا پتنگا ہے
جو دیواروں پہ آئینوں پہ،
پیمانوں پہ شیشوں پہ،
مرے جام و سبو، میرے تغاروں پہ
سدا رینگتا ہے
رینگتے وقت کے مانند کبھی
لوٹ آئے گا حَسَن کوزہ گر ِ سوختہ جاں بھی شاید!
اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد،
تو میں سوچتا ہوں:
شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی___
جسے تنتی چلی جاتی ہے، وہ جالا تو نہیں ہوں مَیں بھی؟
یہ سیہ جھونپڑا مَیں جس میں پڑا سوچتا ہوں
میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی
بس ایک نشانی ہے یہی
ان کے فن، ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی
مَیں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت
آکے مجھے دیکھتی ہے
دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے
میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں ____
کھیل اِک سادہ محبّت کا
شب و روز کے اِس بڑھتے ہوئے کھوکلے پن میں جو کبھی
کھیلتے ہیں
کبھی رو لیتے ہیں مل کر، کبھی گا لیتے ہیں،
اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں
دل کے جینے کے بہانے کے سوا ___
حرف سرحد ہیں، جہاں زاد، معانی سرحد
عشق سرحد ہے، جوانی سرحد
اشک سرحد ہیں، تبسّم کی روانی سرحد
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں ____
(دردِ محرومی کی،
تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟)
میرے اِس جھونپڑے میں کتنی ہی خوشبوئیں ہیں
جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں
اسی اِک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں ____
در و دیوار سے لپٹی ہوئی اِس گرد کی خوشبو بھی ہے
میرے افلاس کی، تنہائی کی،
یادوں، تمنّاؤں کی خوشبو ئیں بھی،
پھر بھی اِس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں ___
یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے، گندہ ہے، پراگندہ ہے
ہاں، کبھی دور درختوں سے پرندوں کے صدا آتی ہے
کبھی انجیروں کے، زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے
تو مَیں جی اٹھتا ہوں
تو مَیں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا!
ورنہ اِس گھر میں کوئی سیج نہیں، عطر نہیں ہے،
کوئی پنکھا بھی نہیں،
تجھے جس عشق کی خو ہے
مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں!
تو ہنسے گی، اے جہاں زاد، عجب بات
کہ جذبات کا حاتم بھی مَیں
اور اشیا کا پرستار بھی مَیں
اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی مَیں!
تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے
میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!
عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟
اے جہاں زاد،
ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا
اس کا نہیں کوئی جواب
یہی کافی ہے کہ باطن کے صدا گونج اٹھے!
اے جہاں زاد
مرے گوشہء باطن کی صدا ہی تھی
مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں
کے کنارے گونجی
تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا
صدیوں کا کنارا نکلا
یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے،
بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو ہر اِک فن کا
ہر اِک فن کے پرستار کا
آئینہ ہے
کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئ شیشوں پر
اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت __
تجھے حیرت نہ ہوئی!
میں کوزوں کی طرف، اپنے تغاروں کی طرف
اب جو بغداد سے لوٹا ہوں،
تو مَیں سوچتا ہوں _____
سوچتا ہوں: تو مرے سامنے آئینہ رہی
سر ِ بازار، دریچے میں، سر ِبستر ِ سنجاب کبھی
تو مرے سامنے آئینہ رہی،
جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے
اپنی ہی صورت کے سوا
اپنی تنہائی ِ جانکاہ کی دہشت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے
اِس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں
اب ایک ہی صورت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟
لوح آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے
خط کیوں نہ لکھوں؟
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
مجھے پھر لائے گی؟
وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟
وقت اِک ایسا پتنگا ہے
جو دیواروں پہ آئینوں پہ،
پیمانوں پہ شیشوں پہ،
مرے جام و سبو، میرے تغاروں پہ
سدا رینگتا ہے
لوٹ آئے گا حَسَن کوزہ گر ِ سوختہ جاں بھی شاید!
تو میں سوچتا ہوں:
شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی___
جسے تنتی چلی جاتی ہے، وہ جالا تو نہیں ہوں مَیں بھی؟
یہ سیہ جھونپڑا مَیں جس میں پڑا سوچتا ہوں
میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی
بس ایک نشانی ہے یہی
ان کے فن، ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی
مَیں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت
آکے مجھے دیکھتی ہے
دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے
میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں ____
کھیل اِک سادہ محبّت کا
شب و روز کے اِس بڑھتے ہوئے کھوکلے پن میں جو کبھی
کھیلتے ہیں
کبھی رو لیتے ہیں مل کر، کبھی گا لیتے ہیں،
اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں
دل کے جینے کے بہانے کے سوا ___
حرف سرحد ہیں، جہاں زاد، معانی سرحد
عشق سرحد ہے، جوانی سرحد
اشک سرحد ہیں، تبسّم کی روانی سرحد
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں ____
(دردِ محرومی کی،
تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟)
جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں
اسی اِک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں ____
در و دیوار سے لپٹی ہوئی اِس گرد کی خوشبو بھی ہے
میرے افلاس کی، تنہائی کی،
یادوں، تمنّاؤں کی خوشبو ئیں بھی،
پھر بھی اِس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں ___
یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے، گندہ ہے، پراگندہ ہے
ہاں، کبھی دور درختوں سے پرندوں کے صدا آتی ہے
کبھی انجیروں کے، زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے
تو مَیں جی اٹھتا ہوں
تو مَیں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا!
ورنہ اِس گھر میں کوئی سیج نہیں، عطر نہیں ہے،
کوئی پنکھا بھی نہیں،
تجھے جس عشق کی خو ہے
مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں!
کہ جذبات کا حاتم بھی مَیں
اور اشیا کا پرستار بھی مَیں
اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی مَیں!
تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے
میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!
عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟
اے جہاں زاد،
ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا
اس کا نہیں کوئی جواب
یہی کافی ہے کہ باطن کے صدا گونج اٹھے!
مرے گوشہء باطن کی صدا ہی تھی
مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں
کے کنارے گونجی
تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا
صدیوں کا کنارا نکلا
یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے،
بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو ہر اِک فن کا
ہر اِک فن کے پرستار کا
آئینہ ہے
جہاں زاد،
وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت
جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے
محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن
تمام رات تیرتے رہے تھے ہم
ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے
تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے
کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے
ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوالِ عمر کے خلاف
تیَرتے رہے
تو کہہ اٹھی؛ “حَسَن یہاں بھی کھینچ لائی
جاں کی تشنگی تجھے!“
(لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا مَیں
کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں
سے شاد کام ہو گیا!)
مگر یہ وہم دل میں تَیرنے لگا کہ ہو نہ ہو
مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا ___
نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں
کہ اب بھی ربطِ جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے
یہی وہ اعتبار تھا
کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا ___
مَیں سب سے پہلے “آپ“ ہُوں
اگر ہمیں ہوں ___ تُو ہو او مَیں ہوں ___ پھر بھی مَیں
ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں!
اگر مَیں زندہ ہوں تو کیسے “آپ“ سے دغا کروں؟
کہ تیری جیسی عورتیں، جہاں زاد،
ایسی الجھنیں ہیں
جن کو آج تک کوئی نہیں “سلجھ“ سکا
جو مَیں کہوں کہ مَیں “سلجھ“ سکا تو سر بسر
فریب اپنے آپ سے!
کہ عورتوں کی وہ ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
جواب جس کا ہم نہیں ____
(لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر
تیرے لب پہ تھا ____
وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا
لبوں کو نوچتا رہا
جو مَیں کبھی نہ کر سکا
نہیں یہ سچ ہے ____میں ہوں یا لبیب ہو
رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاطِ ناب کا
جو صدا نوا و یک نوا خرام ِ صبح کی طرح
لبیب ہر نوائے سازگار کی نفی سہی!)
مگر ہمارا رابطہ وصالِ آب و گِل نہیں، نہ تھا کبھی
وجودِ آدمی سے آب و گِل سدا بروں رہے
نہ ہر وصالِ آب و گِل سے کوئی جام یا سبو ہی نہ بن سکا
جو اِن کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے!
جہاں زاد،
ایک تو اور ایک وہ اور ایک مَیں
یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے
ہمیشہ گھومتے رہے
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے ____
مثلثِ قدیم کو مَیں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں
جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اِس مثلثِ قدیم کا
نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں
گھومتے ہوئے
سبو و جام پر ترا بدن، ترا ہی رنگ، تیری نازکی
برس پڑی
وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی
مَیں سَیل ِ نُور ِ اندروں سے دھُل گیا!
مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی
کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!
تمام کوزے بنتے بنتے “تُو“ ہی بن کے رہ گئے
نشاط اِس وصالِ رہ گزر کی ناگہاں مجھے نگل گئی ___
یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ
کہ جب خمیر ِ آب و گِل سے وہ جدا ہوئے
تو اُن کو سمتِ راہِ نَو کی کامرانیاں ملیں ____
(مَیں ایک غریب کوزہ گر
یہ انتہائے معرفت
یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت
مجھے ہو اس کی کیا خبرِ؟)
جہاں زاد،
انتظار آج بھی مجھے ہی کیوں وہی مگر
جو نو برس کے دور ِ نا سزا میں تھا؟
اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا
نہ گمرہی کی رات کا
(شبِ گُنہ کی لذّتوں کا اتنا ذکر کر چکا
وہ خود گناہ بن گئیں!)
حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا
نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا
اِک انتظار ِ بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا!
کبھی جو چند ثانیے زمانِ بے زماں میں آکے رک گئے
تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اُتر گیا
تمام رفتہ و گزشتہ صورتوں، تمام حادثوں
کے سست قافلے
مِرے دروں میں جاگ اُٹھے
مرے دروں میں اِک جہانِ بازیافتہ کی ریل پیل جاگ اُٹھی
بہشت جیسے جاگ آُٹھے خدا کے لا شعور میں!
مَیں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہُوا
غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو
___مرے وجود سے بروں____
تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے
میرے اپنے آپ سے فراق میں،
وہ پھر سے ایک کُل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح)
وہ پھر سے ایک رقص ِ بے زماں بنے
وہ روئتِ ازل بنے!
تیَرتے رہے
تو کہہ اٹھی؛ “حَسَن یہاں بھی کھینچ لائی
جاں کی تشنگی تجھے!“
(لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا مَیں
کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں
سے شاد کام ہو گیا!)
مگر یہ وہم دل میں تَیرنے لگا کہ ہو نہ ہو
مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا ___
نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں
کہ اب بھی ربطِ جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے
یہی وہ اعتبار تھا
کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا ___
مَیں سب سے پہلے “آپ“ ہُوں
اگر ہمیں ہوں ___ تُو ہو او مَیں ہوں ___ پھر بھی مَیں
ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں!
اگر مَیں زندہ ہوں تو کیسے “آپ“ سے دغا کروں؟
کہ تیری جیسی عورتیں، جہاں زاد،
ایسی الجھنیں ہیں
جن کو آج تک کوئی نہیں “سلجھ“ سکا
جو مَیں کہوں کہ مَیں “سلجھ“ سکا تو سر بسر
فریب اپنے آپ سے!
کہ عورتوں کی وہ ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
جواب جس کا ہم نہیں ____
تیرے لب پہ تھا ____
وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا
لبوں کو نوچتا رہا
نہیں یہ سچ ہے ____میں ہوں یا لبیب ہو
رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاطِ ناب کا
جو صدا نوا و یک نوا خرام ِ صبح کی طرح
لبیب ہر نوائے سازگار کی نفی سہی!)
مگر ہمارا رابطہ وصالِ آب و گِل نہیں، نہ تھا کبھی
وجودِ آدمی سے آب و گِل سدا بروں رہے
نہ ہر وصالِ آب و گِل سے کوئی جام یا سبو ہی نہ بن سکا
جو اِن کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے!
ایک تو اور ایک وہ اور ایک مَیں
یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے
ہمیشہ گھومتے رہے
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے ____
مثلثِ قدیم کو مَیں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں
جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اِس مثلثِ قدیم کا
نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں
گھومتے ہوئے
سبو و جام پر ترا بدن، ترا ہی رنگ، تیری نازکی
برس پڑی
وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی
مَیں سَیل ِ نُور ِ اندروں سے دھُل گیا!
مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی
کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!
تمام کوزے بنتے بنتے “تُو“ ہی بن کے رہ گئے
نشاط اِس وصالِ رہ گزر کی ناگہاں مجھے نگل گئی ___
یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ
کہ جب خمیر ِ آب و گِل سے وہ جدا ہوئے
تو اُن کو سمتِ راہِ نَو کی کامرانیاں ملیں ____
(مَیں ایک غریب کوزہ گر
یہ انتہائے معرفت
یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت
مجھے ہو اس کی کیا خبرِ؟)
انتظار آج بھی مجھے ہی کیوں وہی مگر
جو نو برس کے دور ِ نا سزا میں تھا؟
نہ گمرہی کی رات کا
(شبِ گُنہ کی لذّتوں کا اتنا ذکر کر چکا
وہ خود گناہ بن گئیں!)
حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا
نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا
اِک انتظار ِ بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا!
کبھی جو چند ثانیے زمانِ بے زماں میں آکے رک گئے
تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اُتر گیا
تمام رفتہ و گزشتہ صورتوں، تمام حادثوں
کے سست قافلے
مرے دروں میں اِک جہانِ بازیافتہ کی ریل پیل جاگ اُٹھی
بہشت جیسے جاگ آُٹھے خدا کے لا شعور میں!
مَیں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہُوا
غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو
___مرے وجود سے بروں____
تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے
میرے اپنے آپ سے فراق میں،
وہ پھر سے ایک کُل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح)
وہ پھر سے ایک رقص ِ بے زماں بنے
وہ روئتِ ازل بنے!
۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔
0 comments:
Post a Comment