Request

Zyada sy Zyada like [g+1] kr ky post ko Google pr recomment kry Shukria

29 Mar 2014

Famous poet Anis Nagi


Anis NagiAnis Nagi ki tehreer

جمعـرات 7 Oct  2010

اردو کے ممتاز ادیب، ناول نگار، نقاد، شاعر، مترجم اور مدیر انیس ناگی جمعرات کو لاہور میں انتقال کر گئے ۔

ان کی عمر اکہتر سال کے لگ بھگ تھی اور وہ پچاس سے زائد ناولوں، شعری اور تنقیدی مضامین کے مجموعوں، شعری اور نثری ترجموں اور خود اپنے ہی جاری کردہ جریدے دانشور کے مدیر تھے۔

وہ تیس جنوری انیس سو انتالیس کو لاہور ہی میں پیدا ہوئے۔

نوکر شاہی سے ریٹائرمنٹ کے بعد سے وہ صرف ایک ادیب کی زندگی گزار رہے تھے اور اکثر اوقات مختلف موضوعات پر لیکچر دینے کے لیے بھی جاتے تھے۔ جمعرات کو بھی وہ پنجاب پبلک لائبریری میں لیکچر دے رہے تھے کہ ان پر دل کا دورہ پڑا، جس پر انہیں لاہور کے میو ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔

جمعرات ہی کو انہیں لاہور میں اقبال ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔

انہوں نے سوگواروں قریبی دوستوں اور مداحوں کے علاوہ ایک بیوہ، ایک بیٹا اور بیٹی چھوڑے ہیں۔

وہ ساٹھ کی دہائی میں ’نئی شاعری‘ کی تحریک کے نام سے سامنے آنے والے ان لوگوں میں شامل تھے جن کے لیے رائج  شاعری کا روایتی پیرایہ اور اظہار ناقابلِ قبول تھا اور وہ شاعری میں نئے اظہار کو رواج دینا چاہتے تھے۔

نئی شاعری کی اس تحریک کے نمایاں لوگوں میں ان کے ساتھ  جیلانی کامران، افتخارجالب، محمد سلیم الرحمان، عباس اطہر، زاہد ڈار، فہیم جوزی اور سعادت سعید کے نام بھی شامل ہیں۔

ان لوگوں میں انیس ناگی کو خاص اہمیت اس لیے حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے تخلیقی کام کے ساتھ ساتھ  نظری اور فلسفیانہ اساس فراہم کرنے کا کام بھی کیا۔

انیس ناگی کا دوسرا اہم ترین کام شعری تراجم ہیں جن میں انہوں نے سینٹ جان پرس جیسے شاعر کی طویل نظموں کا ترجمہ کیا۔ جسے اردو میں اس لیے زیادہ سراہا نہیں گیا کہ اردو ادیبوں کی اکثریت سینٹ جان پرس کے نام اور کام سے نا واقف تھی حالانکہ پرس کو انیس سو ساٹھ ہی میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

انیس ناگی ادب میں مارکسی وجودی رویے سے زیادہ قریب تھے اور البر کامیو کے بھی تراجم کیے۔

دوسری باتوں کے علاوہ انہیں لوگوں کو ناراض کرنے کا فن آتا تھا اور وہ اپنے تئیں جس بات کو سچ اور درست سمجھتے تھے اسے انتہائی بے باکی سے کہتے تھے اور اس میں کسی تعلق کا بھی خیال نہیں رکھتے تھے۔

ان کے بارے میں کہا جاتا تھا تلخ گوئی ان کا شیوہ ہے۔

انھوں نے سول سروس کا امتحان پاس کیا لیکن اس سے پہلے وہ گورنمنٹ کالج فیصل آباد اردو کی تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔


Anis Nagi ki tehreer

0 comments:

Post a Comment