دیباچہ ۔۔۔۔۔ اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے، اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے، تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں، اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ آپ اس کتاب کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔
ان مضامین کے افراد سب خیالی ہیں، حتیٰ کہ جن کے ليے وقتاً فوقتاً واحد متکلّم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے وہ بھی “ہرچند کہیں کہ ہیں نہیں ہیں” آپ تو اس نکتے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، لیکن کئی پڑھنے والے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس سے پہلے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ اُن کی غلط فہمی اگر دور ہوجائے تو کیا ہرج ہے۔
جو صاحب اس کتاب کو کسی غیرملکی زبان میں ترجمہ کرنا چاہیں، وہ پہلے اُس ملک کے لوگوں سے اجازت حاصل کرلیں۔
پطرس
****
ہاسٹل میں پڑنا
****
ہم نے کالج میں تعلیم تو ضرور پائی اور رفتہ رفتہ بی اے بھی پاس کرلیا، لیکن اس نصف صدی کے دوران میں جو کالج میں گزارنی پڑی۔ ہاسٹل میں داخل ہونے کی اجازت ہمیں صرف ایک ہی دفعہ ملی۔
خدا کا یہ فضل ہم پر کب اور کس طرح ہوا؟ یہ سوال ایک داستان کا محتاج ہے۔ جب ہم نے انٹرنس پاس کیا تو مقامی اسکول کے ہیڈماسٹر صاحب خاص طور پر مبارکباد دینے کے ليے آئے۔ قریبی رشتہ داروں نے دعوتیں دیں۔ محلے والوں میں مٹھائی بانٹی گئی اور ہمارے گھر والوں پر یک لخت اس بات کا انکشاف ہوا کہ وہ لڑکا جسے آج تک اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے ایک بےکار اور نالائق فرزند سمجھتے رہے تھے، دراصل لامحدود قابلیتوں کا مالک ہے۔ جس کی نشوونما پر بےشمار آنے والی نسلوں کی بہبودی کا انحصار ہے۔ چنانچہ ہماری آئندہ زندگی کے متعلق طرح طرح کی تجویزوں پر غور کیا جانے لگا۔
تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی نے ہم کو وظیفہ دینا مناسب نہ سمجھا۔ چونکہ ہمارے خاندان نے خدا کے فضل سے آج تک کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا اس ليے وظیفے کا نہ ملنا خصوصاً ان رشتہ داروں کے ليے جو رشتے کے لحاظ سے خاندان کے مضافات میں بستے تھے، فخرومباہات کا باعث بن گیا۔ اور “مرکزی رشتے داروں” نے تو اس کو پاس وضع اور حفظ مراتب سمجھ کر ممتحنوں کی شرافت ونجابت کو بے انتہا سراہا۔ بہرحال ہمارے خاندان میں فالتوں روپے کی بہتات تھی۔ اس ليے بلاتکلف یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ نہ صرف ہماری بلکہ ملک وقوم اور شاید بنی نوع انسان کی بہتری کے ليے یہ ضروری ہےکہ ایسے ہونہار طالب علم کی تعلیم جاری رکھی جائے۔
اس بارے میں ہم سے بھی مشورہ کیا گیا۔ عمر بھر میں اس سے پہلے ہمارے کسی معاملے میں ہم سے رائے طلب نہ کی گئی تھی لیکن اب تو حالات بہت مختلف تھے۔ اب تو ایک غیرجانبدار اور ایماندار مصنف یعنی یونیورسٹی ہماری بیدار مغزی کی تصدیق کرچکی تھی۔ اب بھلا ہمیں کیونکہ نظرانداز کیا جاسکتا تھا۔ ہمارا مشورہ یہ تھا کہ ہمیں فوراً ولایت بھیج دیا جائے۔ ہم نے مختلف لیڈروں کی تقریروں سے یہ ثابت کیا کہ ہندوستان کا طریقہ تعلیم بہت ناقص ہے۔ اخبارات میں سے اشتہار دکھا دکھا کر یہ واضح کیا کہ ولایت میں کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فرصت کے اوقات میں بہت تھوڑی تھوڑی فیسیں دے کر بیک وقت جرنلزم، فوٹو گرافی، تصنیف وتالیف، دندان سازی، عینک سازی، ایجنٹوں کا کام غرض یہ کہ بےشمار مفید اور کم خرچ بالانشیں پیشے سیکھے جاسکتے ہیں۔ اور تھوڑے عرصے کے اندر انسان ہرفن مولا بن سکتا ہے۔
لیکن ہماری تجویز کو فوراً رد کردیا گیا۔ کیونکہ ولایت بھیجنے کے ليے ہمارے شہر میں کوئی روایات موجود نہ تھیں۔ ہمارے گردونواح میں کسی کا لڑکا ابھی تک ولایت نہ گیا تھا اس لئے ہمارے شہر کی پبلک وہاں کے حالات سے قطعاً ناواقف تھی۔
اس کے بعد پھر ہم سے رائے طلب نہ کی گئی اور ہمارے والد، ہیڈماسٹر صاحب اور تحصیلدار صاحب ان تینوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں لاہور بھیج دیا جائے۔
جب ہم نے یہ خبر سنی تو شروع شروع میں ہمیں سخت مایوسی ہوئی۔ لیکن جب ادھر اُدھرکے لوگوں سے لاہور کے حالات سنے تو معلوم ہوا کہ لندن اور لاہور میں چنداں فرق نہیں۔ بعض واقف کار دوستوں نے سینما کے حالات پر روشنی ڈالی۔ بعض نے تھیٹروں کے مقاصد سے آگاہ کیا۔ بعض نے ٹھنڈی سڑک وغیرہ کے مشاغل کو سلجھا کر سمجھایا۔ بعض نے شاہدرے اور شالامار کی ارمان انگیز فضا کا نقشہ کھینچا۔ چنانچہ جب لاہور کا جغرافیہ پوری طرح ہمارے ذہن نشین ہوگیا تو ثابت یہ ہوا کہ خوشگوار مقام ہے۔ اور اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کرنے کے ليے بےحدموزوں۔ اس پر ہم نے اپنی زندگی کا پروگرام وضع کرنا شروع کردیا۔ جس میں لکھنے پڑھنے کو جگہ تو ضرور دی گئی، لیکن ایک مناسب حد تک، تاکہ طبعیت پر کوئی ناجائز بوجھ نہ پڑے۔ اور فطرت اپنا کام حسن وخوبی کے ساتھ کرسکے۔
لیکن تحصیلدار صاحب اور ہیڈماسٹر صاحب کی نیک نیتی یہیں تک محدود نہ رہی۔ اگر وہ ایک عام اور مجمل سا مشورہ دے دیتے کہ لڑکے کو لاہور بھیج دیا جائے تو بہت خوب تھا۔ لیکن انہوں نے تو تفصیلات میں دخل دینا شروع کردیا۔ اور ہاسٹل کی زندگی اور گھر کی زندگی کا مقابلہ کرکے ہمارے والد پر یہ ثابت کردیا کہ گھر پاکیزگی اور طہارت کا ایک کعبہ اور ہاسٹل گناہ ومعصیت کا ایک دوزخ ہے۔ ایک تو تھے وہ چرب زبان، اس پر انہوں نے بےشمار غلط بیانیوں سے کام لیا۔ چنانچہ گھر والوں کو یقین سا ہوگیا کہ کالج کا ہاسٹل جرائم پیشہ اقوام کی ایک بستی ہے۔ اور جو طلباء باہر کے شہروں سے لاہور جاتے ہیں اگر ان کی پوری طرح نگہداشت نہ کی جائے تو وہ اکثر یاتوشراب کے نشے میں چوُر سڑک کے کنارے کسی نالی میں گرے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ یا کسی جوئے خانہ میں ہزارہا روپے ہار کر خودکشی کرلیتے ہیں یا پھر فرسٹ ائیر کا امتحان پاس کرنے سے پہلے دس بارہ شادیاں کربیٹھے ہیں۔
چنانچہ گھر والوں کو یہ سوچنے کی عادت پڑ گئی کہ لڑکے کو کالج میں تو داخل کیا جائےلیکن ہاسٹل میں نہ رکھا جائے۔ کالج ضرور مگر ہاسٹل ہرگز نہیں۔ کالج مفید۔ مگر ہاسٹل مضر۔ وہ بہت ٹھیک مگر یہ ناممکن۔ جب انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین ہی یہ بنالیا کہ کوئی ایسی ترکیب سوچی جائے جس سے لڑکا ہاسٹل کی زد سے محفوظ رہے تو کسی ترکیب کا سوجھ جانا کیا مشکل تھا۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ چنانچہ ازحد غوروخوض کے بعد لاہور میں ہمارے ایک ماموں دریافت کئے گئے۔ اور ان کو ہمارا سرپرست بنادیا گیا۔ میرے دل میں ان کی عزت پیدا کرنے کے ليے بہت سے شجروں کی ورق گردانی سے مجھ پر یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی میرے ماموں ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ جب میں ایک شیرخوار بچہ تھا تو وہ مجھ سے بےانتہا محبت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ ہم پڑھیں کالج میں رہیں ماموں کے گھر۔
اس سے تحصیل علم کا جو ایک ولولہ سا ہمارے دل میں اُٹھ رہا تھا وہ کچھ بیٹھ سا گیا۔ ہم نے سوچا یہ ماموں لوگ اپنی سرپرستی کے زعم میں والدین سے بھی زیادہ احتیاط برتیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے دماغی اور روحانی قویٰ کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ ملے گا۔ اور تعلیم کا اصلی مقصد فوت ہوجائے گا۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا ہمیں خوف تھا۔ ہم روزبروز مرجھاتے چلے گئے۔ اور ہمارے دماغ پر پھپھوندی سی جمنے لگی۔ سینما جانے کی اجازت کبھی کبھار مل جاتی تھی لیکن اس شرط پر کہ بچوں کو بھی ساتھ لیتا جاؤں۔ اس صحبت میں، میں بھلا سینما سے کیا اخذ کرسکتا تھا۔ تھیٹر کے معاملے میں ہماری معلومات اندرسبھا سے آگے بڑھنے نہ پائیں۔ تیرنا ہمیں نہ آیا کیونکہ ہمارے ماموں کا ایک مشہور قول ہے کہ ڈوبتا وہی ہے جو تیراک ہو جسے تیرنا نہ آتا ہو وہ پانی میں گھستا ہی نہیں۔ گھر پر آنے جانے والے دوستوں کا انتخاب ماموں کے ہاتھ میں تھا۔ کوٹ کتنا لمبا پہنا جائے، اور بال کتنے لمبے رکھے جائیں۔ ان کے متعلق ہدایات بہت کڑی تھیں۔ ہفتے میں دوبار گھر خط لکھنا ضروری تھا۔ سگریٹ غسل خانے میں چھپ کر پیتے تھے۔ گانے بجانے کی سخت ممانعت تھی۔
یہ سپاہیانہ زندگی ہمیں راس نہ آئی۔ یوں تو دوستوں سے ملاقات بھی ہوجاتی تھی۔ سیر کو بھی چلے جاتے تھے۔ ہنس بول بھی لیتے تھے لیکن وہ جو زندگی میں ایک آزادی ایک فراخی، ایک وارفتگی ہونی چاہیئے وہ ہمیں نصیب نہ ہوئی۔ رفتہ رفتہ ہم اپنے ماحول پر غور کرنا شروع کیا کہ ماموں جان عموماً کس وقت گھر میں ہوتے ہیں، کس وقت باہر جاتے ہیں، کس کمرے سے کس کمرے تک گانے کی آواز نہیں پہنچ سکتی، کس دروازے سے کمرے کے کس کونے میں جھانکنا ممکن ہے۔ گھر کا کون سادروزہ رات کے وقت باہر سے کھولا جاسکتا ہے، کون سا ملازم موافق ہے، کون سا نمک حلال ہے۔ جب تجربے اور مطالعے سے ان باتوں کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا تو ہم نے اس زندگی میں بھی نشوونما کے ليے چند گنجائشیں پیدا کرلیں۔ لیکن پھر بھی ہم روز دیکھتے تھے کہ ہاسٹل میں رہنے و الے طلباء کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر زندگی کی شاہراہ پر چل رہے ہیں۔ ہم ان کی زندگی پر رشک کرنے لگے۔ اپنی زندگی کو سدھارنے کی خواہش ہمارے دل میں روزبروز بڑھتی گئی۔ ہم نے دل سے کہا والدین کی نافرمانی کسی مذہب میں جائز نہیں۔ لیکن ان کی خدمت میں درخواست کرنا، ان کے سامنے اپنی ناقص رائے کا اظہار کرنا، ان کو صحیح واقعات سے آگاہ کرنا میرا فرض ہے۔ اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے اپنے فرض کی ادائیگی سے باز نہیں رکھ سکتی۔
چنانچہ جب گرمیوں کی تعطیلات میں، میں وطن کو واپس گیا تو چند مختصر مگر جامع اور مؤثر تقریریں اپنے دماغ میں تیار رکھیں۔ گھروالوں کو ہاسٹل پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہاں کی آزادی نوجوانوں کے ليے ازحد مضر ہوتی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے ليے ہزارہا واقعات ایسے تصنیف کئے جن سے ہاسٹل کے قواعد کی سختی ان پر اچھی طرح روشن ہوجائے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے ظلم وتششد کی چند مثالیں رقت انگیز اور ہیبت خیز پیرائے میں سنائیں۔ آنکھیں بند کرکے ایک آہ بھری اور بیچارے اشفاق کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دن شام کے وقت بیچارا ہاسٹل کو واپس آرہا تھا۔ چلتے چلتے پاؤں میں موچ آگئی۔ دو منٹ دیر سے پہنچا۔ صرف دو منٹ۔ بس صاحب اس پر سپرنٹنڈنٹ صاحب نے فوراً تار دے کر اس کے والد کو بلوایا۔ پولیس سے تحقیقات کرنے کو کہا۔ اور مہینے بھر کے ليے اس کا جیب خرچ بند کروادیا۔ توبہ ہے الہیٰ!
لیکن یہ واقعہ سن کر گھر کے لوگ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے مخالف ہوگئے۔ ہاسٹل کی خوبی ان پر واضح نہ ہوئی۔ پھر ایک دن موقع پا کر بیچارے محمود کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ شامت اعمال بیچارا سینما دیکھنے چلا گیا۔ قصور اس سے یہ ہوا کہ ایک روپے والے درجے میں جانے کی بجائے دو روپے والے درجے میں چلا گیا۔ بس اتنی سی فضول خرچی پر اسے عمر بھر کو سینما جانے کی ممانعت ہوگئی ہے۔
لیکن اس سے بھی گھر والے متاثر نہ ہوئے۔ ان کے رویئے سے مجھے فوراً احساس ہوا کہ ایک روپے اور دو روپے کی بجائے آٹھ آنے اور ایک روپیہ کہنا چاہیئے تھا۔
ان ہی ناکام کوششوں میں تعطیلات گزر گئیں اور ہم نے پھر ماموں کی چوکھٹ پر آکر سجدہ کیا۔
اگلی گرمیوں میں جب ہم پھر گھر گئے تو ہم نے ایک نیا ڈھنگ اختیار کیا۔ دو سال تعلیم پانے کے بعد ہمارے خیالات میں پختگی سی آگئی تھی پچھلے سال ہاسٹل کی حمایت میں جو دلائل ہم نے پیش کی تھیں، وہ اب ہمیں نہایت بودی معلوم ہونے لگی تھیں۔ اب کے ہم نے اس موضوع پر ایک لیکچر دیا کہ جو شخص ہاسٹل کی زندگی سے محروم ہو اس کی شخصیت نامکمل رہ جاتی ہے۔ ہاسٹل سے باہرشخصیت پنپنے نہیں پاتی۔ چند دن تو ہم اس پر فلسفیانہ گفتگو کرتے رہے۔ اور نفسیات کے نقطہ نظر سے اس پر بہت کچھ روشنی ڈالی۔ لیکن ہمیں محسوس ہوا کہ بغیر مثالوں کے کام نہ چلے گا۔ اور جب مثالیں دینے کی نوبت آئی، تو ذرا وقت محسوس ہوئی۔ کالج کے جن طلبا کے متعلق میرا ایمان تھا کہ وہ زبردست شخصیتوں کے مالک ہیں، ان کی زندگی کچھ ایسی نہ تھی کہ والدین کے سامنے بطور نمونے کے پیش کی جاسکے۔ ہر وہ شخص جسے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملاہے، جانتا ہے کہ “والدینی اغراض” کے ليے واقعات کو ایک نئے اور اچھوتے پیرائے میں بیان کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن اس پیرائے کا سوجھ جانا الہام اور اتفاق پر منحصر ہے۔ بعض روشن خیال بیٹے اپنے والدین کو اپنے حیرت انگیز اوصاف کا قائل نہیں کرسکتے اور بعض نالائق سے نالائق طالب علم والدین کو کچھ اس طرح مطمئن کردیتے ہیں کہ ہر ہفتے ان کے نام منی آرڈر چلا آتا ہے۔
بناداں آں چناں روزی رساند
کہ دانا اندراں حیران بماند
جب ہم ڈیڑھ مہینے تک شخصیت اور ہاسٹل کی زندگی پر اس کا انحصار، ان پر مضمونوں پر وقتاًفوقتاً اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے تو ایک والد نے پوچھا:
“تمہارا شخصیت سے آخر مطلب کیا ہے؟”
میں تو خدا سے یہی چاہتا تھا کہ وہ مجھے عرض ومعروض کا موقع دیں۔ میں نے کہا۔ “دیکھئے نا۔ مثلاً ایک طالب علم ہے، وہ کالج میں پڑھتا ہے۔ اب ایک تو اس کا دماغ ہے دوسرا اس کا جسم ہے۔ جسم کی صحت بھی ضروری ہے۔ اور دماغ کی صحت تو ضروری ہے ہی۔ لیکن ان کے علاوہ ایک اور بات بھی ہوتی ہے جس سے آدمی کو پہنچانا جاتا ہے۔ میں اس کو شخصیت کہتا ہوں۔ اس کا تعلق نہ جسم سے ہوتا ہے نہ دماغ سے، ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی کی جسمانی صحت بالکل خراب ہو اور اس کا دماغ بھی بالکل بیکار ہو، لیکن پھر بھی اس کی شخصیت۔۔۔ نہ خیر دماغ تو بیکار نہیں ہونا چاہیئے ورنہ انسان خبطی ہوتا ہے لیکن پھر بھی اگر ہو بھی۔ تو بھی۔۔۔ گویا شخصیت ایک ایسی چیز ہے۔۔۔ ٹھہرئیے، میں ابھی ایک منٹ میں آپ کو بتاتا ہوں۔”
ایک منٹ کی بجائے والد نے مجھے آدھ گھنٹے کی مہلت دی جس کے دوران میں وہ خاموشی کے ساتھ میرے جواب کا انتظار کرتے رہے، اس کے بعد وہاں سے اُٹھ کر چلاآیا۔
تین چار دن کے بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا، مجھے شخصیت نہیں سیرت کہنا چاہیئے۔ شخصیت ایک بےرنگ سا لفظ ہے۔ سیرت کے لفظ سے نیکی ٹپکتی ہے۔ چنانچہ میں نے سیرت کو اپنا تکیہ کلام بنالیا۔ لیکن یہ بھی مفید ثابت نہ ہوا۔ والد کہنے لگے۔ “کیا سیرت سے تمہارا مطلب چال چلن ہے یا کچھ اور؟” میں نے کہا “چال چلن کہہ لیجیئے۔”
“تو گویا دماغی اور جسمانی صحت کے علاوہ چال چلن بھی اچھا ہونا چاہیئے۔”
میں نے کہا۔ “بس یہی تو میرا مطلب ہے۔”
“اور یہ چال چلن ہاسٹل میں رہنے سے بہت اچھا ہوجاتا ہے!”
میں نسبتاً نحیف آواز سے کہا۔ “جی ہاں۔”
“یعنی ہاسٹل میں رہنے والے طالب علم نماز، روزے کے زیادہ پابند ہوتے ہیں، ملک کی زیادہ خدمت کرتے ہیں ، سچ زیادہ بولتے ہیں، نیک زیادہ ہوتے ہیں۔”
میں نے کہا۔ “جی ہاں”۔
کہنے لگے۔ “وہ کیوں؟”
اس سوال کا جواب ایک دفعہ پرنسپل صاحب نے تقسیم انعامات کے جلسے میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا تھا، اے کاش میں نے اس وقت توجہ سے سنا ہوتا!
اس کے بعد پھر سال بھر میں ماموں کے گھر میں “زندگی ہے تو خزاں کے بھی گزر جائیں کے دن۔” گاتا رہا۔
ہر سال میری درخواست کا یہی حشر ہوتا رہا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔ ہر سال ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ لیکن اگلے سال گرمی کی چھٹیوں میں پہلے سے بھی زیادہ شدومد کے ساتھ تبلیغ کا کام جاری رکھتا۔ ہر دفعہ نئی نئی دلیلیں پیش کرتا، نئی نئی مثالیں کام میں لاتا۔ جب شخصیت اور سیرت والے مضمون سے کام نہ چلا تو اگلے سال ہاسٹل کی زندگی کے انضباط اور باقاعدگی پر تبصرہ کیا۔ اس سے اگلے سال یہ دلیل پیش کی کہ ہاسٹل میں رہنے سے پروفیسروں کے ساتھ ملنے جلنے کے موقعے زیادہ ملتے رہتے ہیں۔ اور ان “بیرون از کالج” ملاقاتوں سے انسان پارس ہوجاتا ہے۔ اس سے اگلے سال یہ مطلب یوں ادا کیا کہ ہاسٹل کی آب وہوا بڑی اچھی ہوتی ہے۔ صفائی کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے۔ مکھیاں اور مچھر مارنے کے ليے کئی کئی افسر مقرر ہیں۔ اس سے اگلے سال یوں سخن پیرا ہوا کہ جب بڑے بڑے حکام کالج کا معائنہ کرتے آتے ہیں تو ہاسٹل میں رہنے والے طلباء سے فرداً فرداً ہاتھ ملاتے ہیں، اس سے رسوخ بڑھتا ہے لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیا، میری تقریروں میں جوش بڑھتا گیا، معقولیت کم ہوتی گئی۔ شروع شروع میں ہاسٹل کے مسئلے پر والد مجھ سے باقاعدہ بحث کیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے یک لفظی انکار کا رویہ اختیار کیا۔ پھر ایک آدھ سال مجھے ہنس کے ٹالتے رہے۔ اور آخر میں یہ نوبت آن پہنچی کہ وہ ہاسٹل کا نام سنتے ہی طنز آمیز قہقہے کے ساتھ مجھے تشریف لے جانے کا حکم دے دیا کرتے تھے۔
ان کے اس سلوک سے آپ یہ اندازہ نہ لگائیے کہ ان کی شفقت کچھ کم ہوگئی تھی، ہر گز نہیں حقیقت صرف اتنی ہے کہ بعض ناگوار حادثات کی وجہ سے گھر میں میرا اقتدار کچھ کم ہوگیا تھا۔
اتفاق یہ ہوا کہ میں نے جب پہلی مرتبہ بی۔اے کا امتحان دیا، تو فیل ہوگیا۔ اگلے سال ایک مرتبہ پھر یہی واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد بھی جب تین چار دفعہ یہی قصہ ہوا تو گھر والوں نے میری امنگوں میں دلچسپی لینی چھوڑ دی۔ بی۔اے میں پےدرپے فیل ہونے کی وجہ سے میری گفتگو میں ایک سوز تو ضرور آگیا تھا، لیکن کلام میں وہ پہلے جیسی شوکت اور میری رائے وہ پہلی جیسی وقعت اب نہ رہی تھی۔
میں نے زمانے طالب علمی کے اس دور کا حال ذرا تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ اس سے ایک تو آپ میری زندگی کے نشیب و فراز سے اچھی طرح واقف ہوجائیں گے اور اس کے علاوہ اس سے یونیورسٹی کی بعض بےقاعدگیوں کا راز بھی آپ پر آشکار ہو جائے گا۔
میں پہلے سال بی۔اے میں کیوں فیل ہوا؟ اس کا سمجھنا بہت آسان ہے۔ بات یہ ہوئی کہ جب ہم نے ایف۔اے کا امتحان دیا تو چونکہ ہم نے کام خوب دل لگا کر کیا تھا، اس ليے ہم اس میں “کچھ” پاس ہی ہوگئے۔ بہرحال فیل نہ ہوئے، یونیورسٹی نے یوں تو ہمارا ذکر بڑے اچھے الفاظ میں کیا لیکن ریاضی کے متعلق یہ ارشاد ہوا کہ صرف اس مضمون کا امتحان ایک آدھ دفعہ پھر دے ڈالو۔ (ایسے امتحان کو اصطلاحاً کمپارٹمنٹ کا امتحان کہا جاتا ہے۔ شاید اس ليے کہ بغیر رضامندی اپنے ہمراہی مسافروں کے اگر کوئی اس میں سفر کر رہے ہوں، نقل نویسی کی سخت ممانعت ہے۔)
اب جب ہم بی۔اے میں داخل ہونے لگے تو ہم نے یہ سوچا کہ بی۔اے میں ریاضی لیں گے۔ اس طرح سے کمپارٹمنٹ کے امتحان کے ليے فالتو کام نہ کرنا پڑےگا۔ لیکن ہمیں سب لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ تم ریاضی مت لو۔ جب ہم نے اس کی وجہ پوچھی تو کسی نے ہمیں کوئی معقول جواب نہ دیالیکن جب پرنسپل صاحب نے بھی مشورہ دیا تو ہم رضامند ہوگئے۔ چنانچہ بی۔اے میں ہمارے مضامین انگریزی، تاریخ اور فارسی قرار پائے۔ ساتھ ساتھ ہم ریاضی کے امتحان کی بھی تیاری کرتے رہے۔ گویا ہم تین کی بجائے چار مضمون پڑھ رہے تھے۔ اس طرح سے جو صورت حال پیدا ہوئی اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنہیں یونیورسٹی کے امتحانات کا کافی تجربہ ہے۔ ہماری قوت مطالعہ منتشر ہوگئی اور خیالات میں پراگندگی پیدا ہوئی۔ اگر مجھے چار کی بجائے صرف تین مضامین پڑھنے ہوتےتو جو وقت میں فی الحال چوتھے مضمون کو دے رہا تھا۔ وہ بانٹ کر ان تین مضامین کو دیتا۔ آپ یقین مانيئے اس سے بڑا فرق پڑ جاتا اور فرض کیا اگر میں وہ وقت تینوں کو بانٹ کر نہ دیتا بلکہ سب کا سب ان تینوں میں سے کسی ایک مضمون کے ليے وقف کردیتا تو کم از کم اس مضمون میں تو ضرور پاس ہو جاتا۔ لیکن موجودہ حالات میں تو وہی ہونا لازم تھا جو ہوا۔ یعنی یہ کہ میں کسی مضمون پر بھی کماحقہ توجہ نہ کرسکا۔ کمپارٹمنٹ کے امتحان میں تو پاس ہوگیا لیکن بی۔اے میں ایک تو انگریزی میں فیل ہوا۔ وہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ انگریزی ہماری مادری زبان نہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ اور فارسی میں بھی فیل ہوگیا۔ اب آپ ہی سوچئے ناکہ جو وقت مجھے کمپارٹمنٹ کے امتحان پر صرف کرنا پڑا وہ اگر میں وہاں صرف نہ کرتا بلکہ اس کے بجائے۔۔۔ مگر خیر یہ بات میں پہلے عرض کرچکا ہوں۔
فارسی میں کسی ایسے شخص کا فیل ہونا جو ایک علم دوست خاندان سے تعلق رکھتا ہو لوگوں کے ليے ازحد حیرت کا موجب ہوا۔ اور سچ پوچھیئے تو ہمیں بھی اس پر سخت ندامت ہوئی۔ لیکن خیر اگلے سال یہ ندامت دھل گئی۔ اور ہم فارسی میں پاس ہوگئے اور اس سے اگلے سال تاریخ میں پاس ہوگئے اور اس سے اگلے سال انگریزی میں۔
اب قاعدے کی رو سے ہمیں بی۔اے کا سرٹیفکیٹ مل جانا چاہیئے تھا۔ لیکن یونیورسٹی کی اس طفلانہ ضد کا کیا علاج کہ تینوں مضمونوں میں بیک وقت پاس ہونا ضروری ہے۔ بعض طبائع ایسی ہیں کہ جب تک یکسوئی نہ ہو، مطالعہ نہیں کرسکتے۔ کیا ضروری ہے کہ ان کے دماغ کو زبردستی ایک کھچڑی سا بنا دیا جائے۔ ہم نے ہر سال صرف ایک مضمون پر اپنی تمام تر توجہ دی اور اس میں وہ کامیابی حاصل کی کہ بایدوشاید، باقی دو مضمون ہم نے نہیں دیکھے لیکن ہم نے یہ تو ثابت کردیا کہ جس مضمون میں چاہیں پاس ہوسکتے ہیں۔
اب تک تو دو دو مضمونوں میں فیل ہوتے رہے تھے لیکن اس کے بعد ہم نے تہیہ کرلیا کہ جہاں تک ہوسکا اپنے مطالعے کو وسیع کریں گے۔ یونیورسٹی کے بیہودہ اور بےمعنی قواعد کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں بناسکتے تو اپنی طبعیت پر ہی کچھ زور ڈالیں۔ لیکن جتنا غور کیا اس نتیجے پر پہنچے کہ تین مضمونوں میں بیک وقت پاس ہونا فی الحال مشکل ہے۔ پہلے دو میں پاس ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ چنانچہ ہم پہلے سال انگریزی اور فارسی میں پاس ہوگئے۔ اور دوسرے سال فارسی اور تاریخ میں۔
جن جن مضامین میں ہم جیسے جیسے فیل ہوئے وہ اس نقشے سے ظاہر ہیں:
(۱) انگریزی ۔۔۔ تاریخ۔۔۔ فارسی
(۲) انگریزی۔۔۔ تاریخ
(۳) انگریزی۔۔۔ فارسی
(۴) تاریخ۔۔۔ فارسی
گویا جن جن طریقوں سے ہم دو دو مضامین میں فیل ہوسکتے تھے وہ ہم نے سب پورے کر دیئے۔ اس کے بعد ہمارے ليے دو مضامین میں فیل ہونا ناممکن ہوگیا۔ اور ایک ایک مضمون میں فیل ہونے کی باری آئی۔ چنانچہ اب ہم نے مندرجہ ذیل نقشے کے مطابق فیل ہونا شروع کردیا:
(۵) تاریخ میں فیل
(۶) انگریزی میں فیل
اتنی دفعہ امتحان دے چکنے کے بعد جب ہم نے اپنے نتیجوں کو یوں اپنے سامنے رکھ کر غور کیا تو ثابت ہوا کہ غم کی رات ہونے والی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اب ہمارے فیل ہونے کا صرف ایک ہی طریقہ باقی رہ گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ فارسی میں فیل ہوجائیں۔ لیکن اس کے بعد تو پاس ہونا لازم ہے ہرچند کہ یہ سانحہ ازحد جانکاہ ہوگا۔ لیکن اس میں یہ مصلحت تو ضرور مضمر ہے کہ اس سے ہمیں ایک قسم کا ٹیکا لگ جائے گا۔ بس یہی ایک کسر باقی رہ گئی ہے۔ اس سال فارسی میں فیل ہوں گے اور پھر اگلے سال قطعی پاس ہوجائیں گے۔ چنانچہ ساتویں دفعہ امتحان دینے کے بعد ہم بیتابی سے فیل ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ یہ انتظار دراصل فیل ہونے کا انتظار نہ تھا بلکہ اس بات کا انتظار تھا کہ اس فیل ہونے کے بعد ہم اگلے سال ہمیشہ کے ليے بی۔اے ہوجائیں گے۔
ہر سال امتحان کے بعد جب گھر آتا تو والدین کو نتیجے کے ليے پہلے ہی سے تیار کردیتا۔ رفتہ رفتہ نہیں بلکہ یکلخت اور فوراً، رفتہ رفتہ تیار کرنے سے خواہ مخواہ وقت ضائع ہوتا ہے۔ اور پریشانی مفت میں طول کھینچتی ہے۔ ہمارا قاعدہ یہ تھا کہ جاتے ہی کہہ دیا کرتے تھے کہ اس سال تو کم از کم پاس نہیں ہوسکتے، والدین کو اکثر یقین نہ آتا۔ ایسے موقعوں پر طبعیت کو بڑی الجھن ہوتی ہے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے میں پرچوں میں کیا لکھ کر آیا ہوں۔ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ممتحن لوگ اگر نشے کی حالت میں پرچے نہ دیکھیں تو میرا پاس ہونا قطعاً ناممکن ہے۔ چاہتا ہوں کہ میرے تمام بہی خواہوں کو بھی اس بات کا یقین ہوجائے تاکہ وقت پر انہیں صدمہ نہ ہو۔ لیکن بہی خوا ہ ہیں کہ میری تمام تشریحات کو محض کسر نفسی سمجھتے ہیں۔ آخری سالوں میں والد کو فوراً یقین آجایا کرتا تھا کیونکہ تجربہ سے ان پر ثابت ہوچکا تھا کہ میرا انداز غلط نہیں ہوتا،لیکن ادھر اُدھر کے لوگ “اجی نہیں صاحب” اجی کیا کہہ رہے ہو”۔ “اجی یہ بھی کوئی بات ہے”۔ ایسے فقروں سے ناک میں دم کردیتے۔ بہرحال اب کے پھر گھر پہنچتے ہی ہم نے حسب دستور اپنے فیل ہونے کی پیشن گوئی کردی۔ دل کو یہ تسلی تھی کہ بس یہ آخری دفعہ ہے۔ اگلے سال ایسی پیش گوئی کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہوگی۔
ساتھ ہی خیال آیاکہ وہ ہاسٹل کا قصہ پھر شروع کرنا چاہیئے۔ اب تو کالج میں صرف ایک ہی سال باقی رہ گیا ہے۔ اب بھی ہاسٹل میں رہنا نصیب نہ ہواتو عمر بھر گویا آزادی سے محروم رہے۔ گھر سے نکلے تو ماموں کے ڈربے میں اور جب ماموں کے ڈربے سے نکلے تو شاید اپنا ایک ڈربا بنانا پڑےگا۔ آزادی کا ایک سال۔ صرف ایک سال اور یہ آخری موقعہ ہے۔
آخری درخواست کرنے سے پہلے میں نے تمام ضروری مصالحہ بڑی احتیاط سے جمع کیا، جن پروفیسروں سے مجھے اب ہم عمری کا فخر حاصل تھا، ان کے سامنے نہایت بےتکلفی سے اپنی آرزوؤں کا اظہار کیا اور ان سے والد کو خطوط لکھوائے کہ اگلے سال لڑکے کو ضرور آپ ہاسٹل میں بھیج دیں۔ بعض کامیاب طلباء کے والدین سے بھی اس مضمون کی عرضداشتیں بھجوائیں۔ خود اعدادوشمار سے ثابت کیا کہ یونیورسٹی سے جتنے لڑکے پاس ہوتے ہیں، ان میں سے اکثر ہاسٹل میں رہتے ہیں، اور یونیورسٹی کا کوئی وظیفہ یا تمغہ یا انعام تو کبھی ہاسٹل سے باہر گیا ہی نہیں۔ میں حیران ہوں کہ یہ دلیل مجھے اس سے پیشتر کبھی کیوں نہ سوجھی تھی۔ کیونکہ یہ بہت کارگر ثابت ہوئی۔ والد کا انکار نرم ہوتے ہوتے غورغوص میں تبدیل ہوگیا، لیکن پھر بھی ان کے دل سے شک رفع نہ ہوا۔ کہنے لگے۔ “میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جس لڑکے کو پڑھنے کا شوق ہو وہ ہاسٹل کی بجائے گھر پر کیوں نہیں پڑھ سکتا۔”
میں نے جواب دیا کہ ہاسٹل میں ایک علمی فضا ہوتی ہے، جو ارسطو اور افلاطون کے گھر کے سوا اور کسی کے گھر میں دستیاب نہیں ہوسکتی۔ ہاسٹل میں جسے دیکھو بحر علوم میں غوطہ زن نظر آتا ہے باوجود اس کے کہ ہر ہاسٹل میں دو دو تین تین سو لڑکے رہتے ہیں پھر بھی وہ خموشی طاری ہوتی ہے کہ قبرستان معلوم ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنے پنے کام میں لگا رہتا ہے۔ شام کے وقت ہاسٹل کے صحن میں جابجا طلبا علمی مباحثوں میں مشغول نظر آتے ہیں۔ علے الصباح ہر ایک طالب علم کتاب ہاتھ میں ليے ہاسٹل کے چمن میں ٹہلتا نظر آتا ہے۔ کھانے کے کمرے میں، کامن روم میں، غسل خانوں میں، برآمدوں میں، ہر جگہ لوگ فلسفے اور ریاضی اور تاریخ کی باتیں کرتے ہیں، جن کو ادب انگریزی کا شوق ہے وہ دن رات آپس میں شیکسپیئر کی طرح گفتگو کرنے کی مشق کرتے ہیں۔ ریاضی کے طلباء اپنے ہر ایک خیال کو الجبرے میں ادا کرنے کی عادت ڈال لیتے ہیں۔ فارسی کے طلباء رباعیوں میں تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔ تاریخ کے دلدادہ۔۔۔”
والد نے اجازت دے دی۔
اب ہمیں یہ انتظار کہ کب فیل ہوں، اور کب اگلے سال کے ليے عرضی بھیجیں۔ اس دوران میں ہم نے ان تمام دوستوں سے خط وکتابت کی جن کے متعلق یقین تھا کہ اگلے سال پھر ان کی رفاقت نصیب ہوگی اور انہیں یہ مژدہ سنایا کہ آئندہ سال ہمیشہ کے ليے کالج کی تاریخ میں یادگار رہے گا کیونکہ ہم تعلیمی زندگی کا ایک وسیع تجربہ اپنے ساتھ ليے ہاسٹل میں آرہے ہیں۔ جس سے ہم طلباء کی نئی پود کو مفت مستفید فرمائیں گے۔ اپنے ذہن میں ہم نے ہاسٹل میں اپنی حیثیت ایک مادر مہربان کی سی سوچ لی جس کے اردگرد ناتجربہ کار طلباء مرغی کے بچوں کی طرح بھاگتے پھریں گے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب جو کسی زمانے میں ہمارے ہم جماعت رہ چکے تھے لکھ بھیجا کہ جب ہم ہاسٹل میں آئیں تو فلاں فلاں مراعات کی توقع آپ سے رکھیں گے، اور فلاں فلاں قواعد سے اپنےآپ کو مستثنیٰ سمجھیں گے۔ اطلاعاً عرض ہے۔ اور یہ سب کچھ کرچکنے کے بعد ہماری بدنصیبی دیکھئے کہ جب نتیجہ نکلا تو ہم پاس ہوگئے۔
ہم پہ تو جو ظلم ہوا سو ہوا، یونیورسٹی والوں کی حماقت ملاحظہ فرمائیے کہ ہمیں پاس کرکے اپنی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔
****
سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
****
گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو شامت آئی تو ایک دن اپنے پڑوسی لالہ کرپا شنکرجی برہمچاری سے برسبیل تذکرہ کہہ بیٹھے کہ “لالہ جی امتحان کے دن قریب آتے جاتے ہیں، آپ سحرخیز ہیں، ذرا ہمیں بھی صبح جگادیا کیجیئے۔”
وہ حضرت بھی معلوم ہوتا ہے نفلوں کے بھوکے بیٹھے تھے۔ دوسرے دن اُٹھتے ہی انہوں نے ایشور کا نام لے کر ہمارے دروازے پر مکابازی شروع کردی کچھ دیر تک تو ہم سمجھے کہ عالم خواب ہے۔ ابھی سے کیا فکر، جاگیں تو لاحول پڑھ لیں گے۔ لیکن یہ گولہ باری لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی گئی۔ اور صاحب جب کمرے کی چوبی دیواریں لرزنے لگیں، صراحی پر رکھا گلاس جلترنگ کی طرح بجنے لگا اور دیوار پر لٹکا ہوا کیلنڈر پنڈولم کی طرح ہلنے لگا تو بیداری کا قائل ہونا ہی پڑا۔ مگر اب دروازہ ہے کہ لگاتار کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔ میں کیا میرے آباؤاجداد کی روحیں اور میری قسمت خوابیدہ تک جاگ اُٹھی ہوگی۔ بہتر آوازیں دیتا ہوں۔۔۔ “اچھا!۔۔۔ اچھا!۔۔۔ تھینک یو!۔۔۔ جاگ گیا ہوں!۔۔۔ بہت اچھا! نوازش ہے!” آنجناب ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔ خدایا کس آفت کا سامنا ہے؟ یہ سوتے کو جگا رہے ہیں یا مردے کو جلا رہے ہیں؟ اور حضرت عیسیٰ بھی تو بس واجبی طور پر ہلکی سی آواز میں “قم” کہہ دیا کرتے ہوں گے، زندہ ہوگیا تو ہوگیا، نہیں تو چھوڑ دیا۔ کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کے پڑجایا کرتے تھے؟ توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے؟ یہ تو بھلا ہم سے کیسے ہوسکتا تھا کہ اُٹھ کر دروازے کی چٹخنی کھول دیتے، پیشتر اس کے کہ بستر سے باہر نکلیں، دل کو جس قدر سمجھانا بجھانا پڑتا ہے۔ اس کا اندازہ کچھ اہل ذوق ہی لگا سکتے ہیں۔ آخرکار جب لیمپ جلایا اور ان کو باہر سے روشنی نظر آئی، تو طوفان تھما۔
اب جو ہم کھڑکی میں سے آسمان کو دیکھتے ہیں تو جناب ستارے ہیں، کہ جگمگا رہے ہیں! سوچا کہ آج پتہ چلائیں گے، یہ سورج آخر کس طرح سے نکلتا ہے۔ لیکن جب گھوم گھوم کر کھڑکی میں سے اور روشندان میں سے چاروں طرف دیکھا اور بزرگوں سے صبح کاذب کی جتنی نشانیاں سنی تھیں۔ ان میں سے ایک بھی کہیں نظر نہ آئی، تو فکر سی لگ گئی کہ آج کہیں سورج گرہن نہ ہو؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا، تو پڑوسی کو آواز دی۔ “لالہ جی!۔۔۔ لالہ جی؟”
جواب آیا۔ “ہوں۔”
میں نے کہا “آج یہ کیا بات ہے۔ کچھ اندھیرا اندھیرا سا ہے؟”
کہنے لگے “تو اور کیا تین بجے ہی سورج نکل آئے؟”
تین بجے کا نام سن کر ہوش گم ہوگئے، چونک کر پوچھا۔ “کیا کہا تم نے؟ تین بجے ہیں۔”
کہنے لگے۔ “تین۔۔۔ تو۔۔۔ نہیں۔۔۔ کچھ سات۔۔۔ ساڑھے سات۔۔۔ منٹ اوپر تین ہیں۔”
میں نے کہا۔ “ارے کم بخت، خدائی فوجدار، بدتمیز کہیں کے، میں نے تجھ سے یہ کہا تھا کہ صبح جگا دینا، یا یہ کہا تھا کہ سرے سے سونے ہی نہ دینا؟ تین بجے جاگنا بھی کوئی شرافت ہے؟ ہمیں تو نے کوئی ریلوے گارڈ سمجھ رکھا ہے؟ تین بجے ہم اُٹھ سکا کرتے تو اس وقت دادا جان کے منظور نظر نہ ہوتے؟ ابے احمق کہیں کے تین بجے اُٹھ کے ہم زندہ رہ سکتے ہیں؟ امیرزادے ہیں، کوئی مذاق ہے، لاحول ولاقوة”۔
دل تو چاہتا تھا کہ عدم تشدد وتشدد کو خیرباد کہہ دوں لیکن پھر خیال آیا کہ بنی نوع انسان کی اصلاح کا ٹھیکہ کوئی ہمیں نے لے رکھا ہے؟ ہمیں اپنے کام سے غرض۔ لیمپ بجھایا اور بڑبڑاتے ہوئے پھر سوگئے۔
اور پھر حسب معمول نہایت اطمینان کے ساتھ بھلے آدمیوں کی طرح اپنے دس بجے اُٹھے، بارہ بجے تک منھ ہاتھ دھویا اور چار بجے چائے پی کر ٹھنڈی سڑک کی سیر کو نکل گئے۔
شام کو واپس ہاِسٹل میں وارد ہوئے۔ جوش شباب تو ہے ہی اس پر شام کا ارمان انگیز وقت۔ ہوا بھی نہایت لطیف تھی۔ طبعیت بھی ذرا مچلی ہوئی تھی۔ ہم ذرا ترنگ میں گاتے ہوئے کمرےمیں داخل ہوئے کہ
بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
کہ اتنے میں پڑوسی کی آواز آئی۔ “مسٹر”۔
ہم اس وقت ذرا چٹکی بجانے لگے تھے۔ بس انگلیاں وہیں پر رک گئیں۔ اور کان آواز کی طرف لگ گئے۔ ارشاد ہوا “یہ آپ گا رہے ہیں؟” (زور “آپ” پر)
میں نے کہا۔ “اجی میں کس لائق ہوں۔ لیکن خیر فرمائیے؟” بولے “ذرا۔۔۔ وہ میں۔۔۔ میں ڈسٹرب ہوتا ہوں ۔ بس صاحب۔ ہم میں جو موسیقیت کی روح پیدا ہوئی تھی فوراً مر گئی۔ دل نے کہا۔ “اونابکار انسان دیکھ پڑھنے والے یوں پڑھتے ہیں “صاحب، خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی کہ “خدایا ہم بھی اب باقاعدہ مطالعہ شروع کرنے والے ہیں۔ہماری مدد کر اور ہمیں ہمت دے۔”
آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کرکے میز کے سامنے آبیٹھے، دانت بھینچ لئے، نکٹائی کھول دی، آستینیں چڑھا لیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آيا کہ کریں کیا؟ سامنے سرخ سبز، زرد سب ہی قسم کی کتابوں کا انبار لگا تھا۔ اب ان میں سے کوئی سی پڑھیں؟ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کتابوں کو ترتیب سے میز پر لگادیں کہ باقاعدہ مطالعہ کی پہلی منزل یہی ہے۔
بڑی تقطیع کی کتابوں کو علیحدہ رکھ دیا۔ چھوٹی تقطیع کی کتابوں کو سائز کے مطابق الگ قطار میں کھڑا کردیا۔ ایک نوٹ پیپر پر ہر ایک کتاب کے صفحوں کی تعداد لکھ کر سب کو جمع کیا پھر ۱۵۔اپریل تک کے دن گنے۔ صفحوں کی تعداد کو دنوں کی تعداد پر تقسیم کیا۔ ساڑھے پانچ سو جواب آیا، لیکن اضطراب کی کیا مجال جو چہرے پر ظاہر ہونے پائے۔ دل میں کچھ تھوڑا سا پچھتائے کہ صبح تین بجے ہی کیوں نہ اُٹھ بیٹھے لیکن کم خوابی کے طبی پہلو پر غور کیا۔ تو فوراً اپنے آپ کو ملامت کی۔ آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ تین بجے اُٹھنا تو لغویات ہےالبتہ پانچ، چھ، سات بجے کے قریب اُٹھنا معقول ہوگا۔ صحت بھی قائم رہے گی، اور امتحان کی تیاری بھی باقاعدہ ہوگی۔ ہم خرماد ہم ثواب۔
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سویرے اُٹھنا ہو تو جلدی ہی سو جانا چاہیئے۔ کھانا باہر سے ہی کھا آئے تھے۔ بستر میں داخل ہوگئے۔
چلتے چلتے خیال آیا، کہ لالہ جی سے جگانے کے ليے کہہ ہی نہ دیں؟ یوں ہماری اپنی قوت ارادی کافی زبردست ہے جب چاہیں اُٹھ سکتے ہیں، لیکن پھر بھی کیا ہرج ہے؟
ڈرتے ڈرتے آواز دی۔ “لالہ جی!”
انہوں پتھر کھینچ مارا “یس!”
ہم اور بھی سہم گئے کہ لالہ جی کچھ ناراض معلوم ہوتے ہیں، تتلا کے درخواست کی کہ لالہ جی، صبح آپ کو بڑی تکلیف ہوئی، میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ کل اگر ذرا مجھے چھ بجے یعنی جس وقت چھ بجیں۔۔۔”
جواب ندارد۔
میں نے پھر کہا “جب چھ بج چکیں تو۔۔۔ سنا آپ نے؟”
چپ۔
“لالہ جی!”
کڑکتی ہوئی آواز نے جواب دیا۔ “سن لیا سن لیا چھ بجے جگا دوں گا۔ تھری گاما پلس فور ایلفا پلس۔۔۔”
“ہم نے کہا ب۔۔۔ ب۔۔۔ ب۔۔۔ بہت اچھا۔ یہ بات ہے۔”
توبہ! خدا کسی کا محتاج نہ کرے۔
لالہ جی آدمی بہت شریف ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق دوسرے دن صبح چھ بجے انہوں نے دروازو ں پر گھونسوں کی بارش شروع کردی۔ ان کا جگانا تو محض ایک سہارا تھا ہم خود ہی انتظار میں تھے کہ یہ خواب ختم ہولے تو بس جاگتے ہیں۔ وہ نہ جگاتے تو میں خود ایک دو منٹ کے بعد آنکھیں کھول دیتا۔ بہر صورت جیسا کہ میرا فرض تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس شکل میں قبول کیا کہ گولہ باری بند کردی۔
اس کے بعد کے واقعات ذرا بحث طلب سے ہیں اور ان کے متعلق روایات میں کسی قدر اختلافات ہے بہرحال اس بات کا تو مجھے یقین ہے۔ اور میں قسم بھی کھا سکتا ہوں کہ آنکھیں میں نے کھول دی تھیں۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ ایک نیک اور سچے مسلمان کی طرح کلمہ شہادت بھی پڑھا۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ اُٹھنے سے پیشتر دیباچے کے طور پر ایک آدھ کروٹ بھی لی۔ پھر کا نہیں پتہ۔ شاید لحاف اوپر سے اتار دیا۔ شاید سر اس میں لپیٹ دیا۔ یا شاید کھانسایا خراٹا لیا۔ خیر یہ تو یقین امر ہے کہ دس بجے ہم بالکل جاگ رہے تھے۔ لیکن لالہ جی کے جگانے کے بعد اور دس بجے سے پیشتر خدا جانے ہم پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ نہیں ہمارا خیال ہے پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ بہرصورت یہ نفسیات کا مسئلہ ہے جس میں نہ آپ ماہر ہیں نہ میں۔ کیا پتہ، لالہ جی نے جگایا ہی دس بجے ہو۔ یا اس دن چھ دیر میں بجے ہوں۔ خدا کے کاموں میں ہم آپ کیا دخل دے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے دل میں دن بھر یہ شبہ رہا کہ قصور کچھ اپنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جناب شرافت ملاحظہ ہو، کہ محض اس شبہ کی بناء پر صبح سے شام تک ضمیر کی ملامت سنتا رہا۔ اور اپنے آپ کو کوستا رہا۔ مگر لالہ جی سے ہنس ہنس کر باتیں کیں ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور اس خیال سے کہ ان کی دل شکنی نہ ہو، حد درجے کی طمانیت ظاہر کی کہ آپ کی نوازش سے میں نے صبح کا سہانا اور روح افزا وقت بہت اچھی طرح صرف کیا ورنہ اور دنوں کی طرح آج بھی دس بجے اُٹھتا۔ “لالہ جی صبح کے وقت دماغ کیا صاف ہوتا ہے، جو پڑھو خدا کی قسم فوراً یاد ہوجاتا ہے۔ بھئی خدا نے صبح بھی کیا عجیب چیز پیدا کی ہے یعنی اگر صبح کے بجائے صبح صبح شام ہوا کرتی تو دن کیا بری طرح کٹا کرتا۔”
لالہ جی نے ہماری اس جادوبیانی کی داد یوں دی کہ آپ پوچھنے لگے۔ “تو میں آپ کو چھ بجے جگا دیا کروں نا؟”
میں نے کہا۔ “ہاں ہاں، واہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ بےشک۔”
شام کے وقت آنے والی صبح کے مطالعہ کے ليے دو کتابیں چھانٹ کر میزپر علیحدہ جوڑ دیں۔ کرسی کو چارپائی کے قریب سرکالیا۔ اوورکوٹ اور گلوبند کو کرسی کی پشت پر آویزاں کر لیا۔ کنٹوپ اور دستانے پاس ہی رکھ ليے۔ دیاسلائی کو تکیئے کے نیچے ٹٹولا۔ تین دفعہ آیت الکرسی پڑھی، اور دل میں نہایت ہی نیک منصوبے باندھ کر سوگیا۔
صبح لالہ جی کی پہلی دستک کے ساتھ ہی جھٹ آنکھ کھل گئی، نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ لحاف کی ایک کھڑکی میں سے ان کو “گڈمارننگ” کیا، اور نہایت بیدارانہ لہجے میں کھانسا، لالہ جی مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔
ہم نے اپنی ہمت اور اولوالعزمی کو بہت سراہا کہ آج ہم فوراً ہی جاگ اُٹھے۔ دل سے کہا کہ “دل بھیا، صبح اُٹھنا تو محض ذرا سی بات ہے ہم یوں ہی اس سے ڈرا کرتے تھے”۔ دل نے کہا “اور کیا؟ تمہارے تو یوں ہی اوسان خطا ہوجایا کرتے ہیں”۔ ہم نے کہا “سچ کہتے ہو یار، یعنی اگر ہم سستی اور کسالت کو خود اپنے قریب نہ آنے دیں تو ان کی کیا مجال ہے کہ ہماری باقاعدگی میں خلل انداز ہوں۔ اس وقت لاہور شہر میں ہزاروں ایسے کاہل لوگ ہوں گے جو دنیا ومافیہا سے بےخبر نیند کے مزے اُڑاتے ہوں گے۔ اور ایک ہم ہیں کہ ادائے فرض کی خاطر نہایت شگفتگہ طبعی اور غنچہ دہنی سے جاگ رہے ہیں۔ “بھئی کیا برخوردار سعادت آثار واقع ہوئے ہیں۔” ناک کو سردی سی محسوس ہونے لگی تو اسے ذرا یو ں ہی سا لحاف اوٹ میں کر لیا اور پھر سوچنے لگے۔۔۔ “خوب۔ تو ہم آج کیا وقت پر جاگے ہیں بس ذرا اس کی عاد ت ہوجائے تو باقاعدہ قرآن مجید کی تلاوت اور فجر کی نماز بھی شروع کردیں گے۔ آخر مذہب سب سے مقدم ہے ہم بھی کیا روزبروز الحاد کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں نہ خدا کا ڈر اور نہ رسول کا خوف۔ سمجھتے ہیں کہ بس اپنی محنت سے امتحان پاس کرلیں گے۔ اکبر بیچارا یہی کہتا کہتا مرگیا لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ چلی۔۔۔ (لحاف کانوں پر سرک آیا)۔۔۔ تو گویا آج ہم اور لوگوں سے پہلے جاگے ہیں۔۔۔ بہت ہی پہلے۔۔۔ یعنی کالج شروع ہونے سے بھی چار گھنٹے پہلے۔ کیا بات ہے! خداوندان کالج بھی کس قدر سست ہیں ایک مستعد انسان کو چھ بجے تک قطعی جاگ اُٹھنا چاہئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کالج سات بجے کیوں نہ شروع ہوا کرے۔۔۔ (لحاف سر پر)۔۔۔ بات یہ ہے کہ تہذیب جدید ہماری تمام اعلیٰ قوتوں کی بیخ کنی کر رہی ہے۔ عیش پسندی روزبروز بڑھتی جاتی ہے۔۔۔ (آنکھیں بند)۔۔۔ تو اب چھ بجے ہیں تو گویا تین گھنٹے تو متواتر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ پہلے کون سی کتابیں پڑھیں۔ شیکسپیئر یا ورڈزورتھ؟ میں جانوں شیکسپیئر بہتر ہوگا۔ اس کی عظیم الشان تصانیف میں خدا کی عظمت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اور صبح کے وقت الله میاں کی یاد سے بہتر چیز کیا ہوسکتی ہے؟ پھر خیال آیا کہ دن کو جذبات کے محشرستان سے شروع کرنا ٹھیک فلسفہ نہیں۔ ورڈزورتھ پڑھیں۔ اس کے اوراق میں فطرت کو سکون واطمینان میسر ہوگا اور دل اور دماغ نیچر کی خاموش دلآویزیوں سے ہلکے ہلکے لطف اندوز ہوں گے۔۔۔ لیکن ٹھیک ہی رہے گا شیکسپیئر۔۔۔ نہیں ورڈزورتھ۔۔۔ لیڈی میکبتھ۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ سبزہ زار۔۔۔ سنجر سنجر۔۔۔ بادبہاری۔۔۔ صید ہوس۔۔۔ کشمیر۔۔۔ میں آفت کا پرکالہ ہوں۔۔۔
یہ معمہ اب مابعد الطبعیات ہی سے تعلق رکھتا ہے کہ پھر جو ہم نے لحاف سے سر باہر نکالا اور ورڈزورتھ پڑھنے کا ارادہ کیا تو وہی دس بج رہے تھے۔ اس میں نہ معلوم کیا بھید ہے!
کالج ہال میں لالہ جی ملے۔ “مسٹر! صبح میں نے آپ کو پھر آواز دی تھی، آپ نے جواب نہ دیا؟”
میں نے زور کا قہقہہ لگا کر کہا۔ “اوہو۔ لالہ جی یاد نہیں۔ میں نے آپ کو گڈمارننگ کہا تھا؟ میں تو پہلے ہی سے جاگ رہا تھا”۔
بولے “وہ تو ٹھیک ہے لیکن بعد میں۔۔۔ اس کے بعد!۔۔۔ کوئی سات بجے کے قریب میں نے آپ سے تاریخ پوچھی تھی، آپ بولے ہی نہیں۔”
ہم نے نہایت تعجب کی نظروں سے ان کو دیکھا۔ گویا وہ پاگل ہوگئے ہیں۔ اور پھر ذرا متین چہرہ بنا کر ماتھے پر تیوریاں چڑھائےغوروفکر میں مصروف ہوگئے۔ ایک آدھ منٹ تک ہم اس تعمق میں رہے۔ پھر یکایک ایک محجومانہ اور معشوقانہ انداز سے مسکراکے کہا۔ “ہاں ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میں اس وقت۔۔۔ اے۔۔۔ اے، نماز پڑھ رہا تھا۔”
لالہ جی مرعوب سے ہو کر چل دیئے۔ اور ہم اپنے زہد واتقا کی مسکینی میں سر نیچا کئے کمرے کی طرف چلے آئے۔ اب یہی ہمارا روزمرہ کا معمول ہوگیا ہے۔ جاگنا نمبر ایک چھ بجے۔ جگانا نمبر دو دس بجے۔ اس دوران لالہ جی آواز دیں تو نماز۔
جب دل مرحوم ایک جہان آرزو تھا تو یوں جاگنے کی تمنا کیا کرتے تھے کہ “ہمارا فرق ناز محو بالش کمخواب” ہو اور سورج کی پہلی کرنیں ہمارے سیاہ پُرپیچ بالوں پر پڑ رہی ہیں۔ کمرے میں پھولوں کی بوئے سحری روح افزائیاں کر رہی ہو۔ نازک اور حسین ہاتھ اپنی انگلیوں سے بربط کے تاروں کو ہلکے ہلکے چھیڑ رہے ہوں۔ اور عشق میں ڈوبی ہوئی سریلی اور نازک آواز مسکراتی ہوئی گا رہی ہو!
تم جاگو موہن پیارے
خواب کی سنہری دھند آہستہ آہستہ موسیقی کی لہروں میں تحلیل ہوجائے اور بیداری ایک خوشگوار طلسم کی طرح تاریکی کے باریک نقاب کو خاموشی سے پارہ پارہ کردے چہرہ کسی کی نگاہ اشتیاق کی گرمی محسوس کر رہا ہو۔ آنکھیں مسحور ہو کر کھلیں اور چار ہوجائیں۔ دلآویز تبسم صبح کو اور بھی درخشندہ کردے۔ اور گیت “سانوری صورت توری من کو بھائی” کے ساتھ ہی شرم وحجاب میں ڈوب جائے۔
نصیب یہ ہے کہ پہلے “مسٹر! مسٹر!” کی آواز اور دروازے کے دنادن سامعہ نوازی کرتی ہے، اور پھر چار گھنٹے بعد کالج کا گھڑیال دماغ کے ریشے ریشے میں دس بجانا شروع کردیتا ہے۔ اور اس چار گھنٹے کے عرصہ میں گڑویوں کے گر گرنے۔ دیگچیوں کے اُلٹ جانے، دروازوں کے بند ہونے، کتابوں کے جھاڑنے، کرسیوں کے گھسیٹنے، کُلیاں اور غرغرے کرنے، کھنکھارنے اور کھانسنے کی آوازیں تو گویا فی البدیہہ ٹھمریاں ہیں۔ اندازہ کرلیجیئے کہ ان سازوں میں سُرتال کی کس قدر گنجائش ہے!
موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے
جب طبعیت کو دیکھتا ہوں میں
****
ہاسٹل میں پڑنا
****
خدا کا یہ فضل ہم پر کب اور کس طرح ہوا؟ یہ سوال ایک داستان کا محتاج ہے۔ جب ہم نے انٹرنس پاس کیا تو مقامی اسکول کے ہیڈماسٹر صاحب خاص طور پر مبارکباد دینے کے ليے آئے۔ قریبی رشتہ داروں نے دعوتیں دیں۔ محلے والوں میں مٹھائی بانٹی گئی اور ہمارے گھر والوں پر یک لخت اس بات کا انکشاف ہوا کہ وہ لڑکا جسے آج تک اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے ایک بےکار اور نالائق فرزند سمجھتے رہے تھے، دراصل لامحدود قابلیتوں کا مالک ہے۔ جس کی نشوونما پر بےشمار آنے والی نسلوں کی بہبودی کا انحصار ہے۔ چنانچہ ہماری آئندہ زندگی کے متعلق طرح طرح کی تجویزوں پر غور کیا جانے لگا۔
تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی نے ہم کو وظیفہ دینا مناسب نہ سمجھا۔ چونکہ ہمارے خاندان نے خدا کے فضل سے آج تک کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا اس ليے وظیفے کا نہ ملنا خصوصاً ان رشتہ داروں کے ليے جو رشتے کے لحاظ سے خاندان کے مضافات میں بستے تھے، فخرومباہات کا باعث بن گیا۔ اور “مرکزی رشتے داروں” نے تو اس کو پاس وضع اور حفظ مراتب سمجھ کر ممتحنوں کی شرافت ونجابت کو بے انتہا سراہا۔ بہرحال ہمارے خاندان میں فالتوں روپے کی بہتات تھی۔ اس ليے بلاتکلف یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ نہ صرف ہماری بلکہ ملک وقوم اور شاید بنی نوع انسان کی بہتری کے ليے یہ ضروری ہےکہ ایسے ہونہار طالب علم کی تعلیم جاری رکھی جائے۔
اس بارے میں ہم سے بھی مشورہ کیا گیا۔ عمر بھر میں اس سے پہلے ہمارے کسی معاملے میں ہم سے رائے طلب نہ کی گئی تھی لیکن اب تو حالات بہت مختلف تھے۔ اب تو ایک غیرجانبدار اور ایماندار مصنف یعنی یونیورسٹی ہماری بیدار مغزی کی تصدیق کرچکی تھی۔ اب بھلا ہمیں کیونکہ نظرانداز کیا جاسکتا تھا۔ ہمارا مشورہ یہ تھا کہ ہمیں فوراً ولایت بھیج دیا جائے۔ ہم نے مختلف لیڈروں کی تقریروں سے یہ ثابت کیا کہ ہندوستان کا طریقہ تعلیم بہت ناقص ہے۔ اخبارات میں سے اشتہار دکھا دکھا کر یہ واضح کیا کہ ولایت میں کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فرصت کے اوقات میں بہت تھوڑی تھوڑی فیسیں دے کر بیک وقت جرنلزم، فوٹو گرافی، تصنیف وتالیف، دندان سازی، عینک سازی، ایجنٹوں کا کام غرض یہ کہ بےشمار مفید اور کم خرچ بالانشیں پیشے سیکھے جاسکتے ہیں۔ اور تھوڑے عرصے کے اندر انسان ہرفن مولا بن سکتا ہے۔
لیکن ہماری تجویز کو فوراً رد کردیا گیا۔ کیونکہ ولایت بھیجنے کے ليے ہمارے شہر میں کوئی روایات موجود نہ تھیں۔ ہمارے گردونواح میں کسی کا لڑکا ابھی تک ولایت نہ گیا تھا اس لئے ہمارے شہر کی پبلک وہاں کے حالات سے قطعاً ناواقف تھی۔
اس کے بعد پھر ہم سے رائے طلب نہ کی گئی اور ہمارے والد، ہیڈماسٹر صاحب اور تحصیلدار صاحب ان تینوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں لاہور بھیج دیا جائے۔
جب ہم نے یہ خبر سنی تو شروع شروع میں ہمیں سخت مایوسی ہوئی۔ لیکن جب ادھر اُدھرکے لوگوں سے لاہور کے حالات سنے تو معلوم ہوا کہ لندن اور لاہور میں چنداں فرق نہیں۔ بعض واقف کار دوستوں نے سینما کے حالات پر روشنی ڈالی۔ بعض نے تھیٹروں کے مقاصد سے آگاہ کیا۔ بعض نے ٹھنڈی سڑک وغیرہ کے مشاغل کو سلجھا کر سمجھایا۔ بعض نے شاہدرے اور شالامار کی ارمان انگیز فضا کا نقشہ کھینچا۔ چنانچہ جب لاہور کا جغرافیہ پوری طرح ہمارے ذہن نشین ہوگیا تو ثابت یہ ہوا کہ خوشگوار مقام ہے۔ اور اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کرنے کے ليے بےحدموزوں۔ اس پر ہم نے اپنی زندگی کا پروگرام وضع کرنا شروع کردیا۔ جس میں لکھنے پڑھنے کو جگہ تو ضرور دی گئی، لیکن ایک مناسب حد تک، تاکہ طبعیت پر کوئی ناجائز بوجھ نہ پڑے۔ اور فطرت اپنا کام حسن وخوبی کے ساتھ کرسکے۔
لیکن تحصیلدار صاحب اور ہیڈماسٹر صاحب کی نیک نیتی یہیں تک محدود نہ رہی۔ اگر وہ ایک عام اور مجمل سا مشورہ دے دیتے کہ لڑکے کو لاہور بھیج دیا جائے تو بہت خوب تھا۔ لیکن انہوں نے تو تفصیلات میں دخل دینا شروع کردیا۔ اور ہاسٹل کی زندگی اور گھر کی زندگی کا مقابلہ کرکے ہمارے والد پر یہ ثابت کردیا کہ گھر پاکیزگی اور طہارت کا ایک کعبہ اور ہاسٹل گناہ ومعصیت کا ایک دوزخ ہے۔ ایک تو تھے وہ چرب زبان، اس پر انہوں نے بےشمار غلط بیانیوں سے کام لیا۔ چنانچہ گھر والوں کو یقین سا ہوگیا کہ کالج کا ہاسٹل جرائم پیشہ اقوام کی ایک بستی ہے۔ اور جو طلباء باہر کے شہروں سے لاہور جاتے ہیں اگر ان کی پوری طرح نگہداشت نہ کی جائے تو وہ اکثر یاتوشراب کے نشے میں چوُر سڑک کے کنارے کسی نالی میں گرے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ یا کسی جوئے خانہ میں ہزارہا روپے ہار کر خودکشی کرلیتے ہیں یا پھر فرسٹ ائیر کا امتحان پاس کرنے سے پہلے دس بارہ شادیاں کربیٹھے ہیں۔
چنانچہ گھر والوں کو یہ سوچنے کی عادت پڑ گئی کہ لڑکے کو کالج میں تو داخل کیا جائےلیکن ہاسٹل میں نہ رکھا جائے۔ کالج ضرور مگر ہاسٹل ہرگز نہیں۔ کالج مفید۔ مگر ہاسٹل مضر۔ وہ بہت ٹھیک مگر یہ ناممکن۔ جب انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین ہی یہ بنالیا کہ کوئی ایسی ترکیب سوچی جائے جس سے لڑکا ہاسٹل کی زد سے محفوظ رہے تو کسی ترکیب کا سوجھ جانا کیا مشکل تھا۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ چنانچہ ازحد غوروخوض کے بعد لاہور میں ہمارے ایک ماموں دریافت کئے گئے۔ اور ان کو ہمارا سرپرست بنادیا گیا۔ میرے دل میں ان کی عزت پیدا کرنے کے ليے بہت سے شجروں کی ورق گردانی سے مجھ پر یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی میرے ماموں ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ جب میں ایک شیرخوار بچہ تھا تو وہ مجھ سے بےانتہا محبت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ ہم پڑھیں کالج میں رہیں ماموں کے گھر۔
اس سے تحصیل علم کا جو ایک ولولہ سا ہمارے دل میں اُٹھ رہا تھا وہ کچھ بیٹھ سا گیا۔ ہم نے سوچا یہ ماموں لوگ اپنی سرپرستی کے زعم میں والدین سے بھی زیادہ احتیاط برتیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے دماغی اور روحانی قویٰ کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ ملے گا۔ اور تعلیم کا اصلی مقصد فوت ہوجائے گا۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا ہمیں خوف تھا۔ ہم روزبروز مرجھاتے چلے گئے۔ اور ہمارے دماغ پر پھپھوندی سی جمنے لگی۔ سینما جانے کی اجازت کبھی کبھار مل جاتی تھی لیکن اس شرط پر کہ بچوں کو بھی ساتھ لیتا جاؤں۔ اس صحبت میں، میں بھلا سینما سے کیا اخذ کرسکتا تھا۔ تھیٹر کے معاملے میں ہماری معلومات اندرسبھا سے آگے بڑھنے نہ پائیں۔ تیرنا ہمیں نہ آیا کیونکہ ہمارے ماموں کا ایک مشہور قول ہے کہ ڈوبتا وہی ہے جو تیراک ہو جسے تیرنا نہ آتا ہو وہ پانی میں گھستا ہی نہیں۔ گھر پر آنے جانے والے دوستوں کا انتخاب ماموں کے ہاتھ میں تھا۔ کوٹ کتنا لمبا پہنا جائے، اور بال کتنے لمبے رکھے جائیں۔ ان کے متعلق ہدایات بہت کڑی تھیں۔ ہفتے میں دوبار گھر خط لکھنا ضروری تھا۔ سگریٹ غسل خانے میں چھپ کر پیتے تھے۔ گانے بجانے کی سخت ممانعت تھی۔
یہ سپاہیانہ زندگی ہمیں راس نہ آئی۔ یوں تو دوستوں سے ملاقات بھی ہوجاتی تھی۔ سیر کو بھی چلے جاتے تھے۔ ہنس بول بھی لیتے تھے لیکن وہ جو زندگی میں ایک آزادی ایک فراخی، ایک وارفتگی ہونی چاہیئے وہ ہمیں نصیب نہ ہوئی۔ رفتہ رفتہ ہم اپنے ماحول پر غور کرنا شروع کیا کہ ماموں جان عموماً کس وقت گھر میں ہوتے ہیں، کس وقت باہر جاتے ہیں، کس کمرے سے کس کمرے تک گانے کی آواز نہیں پہنچ سکتی، کس دروازے سے کمرے کے کس کونے میں جھانکنا ممکن ہے۔ گھر کا کون سادروزہ رات کے وقت باہر سے کھولا جاسکتا ہے، کون سا ملازم موافق ہے، کون سا نمک حلال ہے۔ جب تجربے اور مطالعے سے ان باتوں کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا تو ہم نے اس زندگی میں بھی نشوونما کے ليے چند گنجائشیں پیدا کرلیں۔ لیکن پھر بھی ہم روز دیکھتے تھے کہ ہاسٹل میں رہنے و الے طلباء کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر زندگی کی شاہراہ پر چل رہے ہیں۔ ہم ان کی زندگی پر رشک کرنے لگے۔ اپنی زندگی کو سدھارنے کی خواہش ہمارے دل میں روزبروز بڑھتی گئی۔ ہم نے دل سے کہا والدین کی نافرمانی کسی مذہب میں جائز نہیں۔ لیکن ان کی خدمت میں درخواست کرنا، ان کے سامنے اپنی ناقص رائے کا اظہار کرنا، ان کو صحیح واقعات سے آگاہ کرنا میرا فرض ہے۔ اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے اپنے فرض کی ادائیگی سے باز نہیں رکھ سکتی۔
چنانچہ جب گرمیوں کی تعطیلات میں، میں وطن کو واپس گیا تو چند مختصر مگر جامع اور مؤثر تقریریں اپنے دماغ میں تیار رکھیں۔ گھروالوں کو ہاسٹل پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہاں کی آزادی نوجوانوں کے ليے ازحد مضر ہوتی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے ليے ہزارہا واقعات ایسے تصنیف کئے جن سے ہاسٹل کے قواعد کی سختی ان پر اچھی طرح روشن ہوجائے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے ظلم وتششد کی چند مثالیں رقت انگیز اور ہیبت خیز پیرائے میں سنائیں۔ آنکھیں بند کرکے ایک آہ بھری اور بیچارے اشفاق کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دن شام کے وقت بیچارا ہاسٹل کو واپس آرہا تھا۔ چلتے چلتے پاؤں میں موچ آگئی۔ دو منٹ دیر سے پہنچا۔ صرف دو منٹ۔ بس صاحب اس پر سپرنٹنڈنٹ صاحب نے فوراً تار دے کر اس کے والد کو بلوایا۔ پولیس سے تحقیقات کرنے کو کہا۔ اور مہینے بھر کے ليے اس کا جیب خرچ بند کروادیا۔ توبہ ہے الہیٰ!
لیکن یہ واقعہ سن کر گھر کے لوگ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے مخالف ہوگئے۔ ہاسٹل کی خوبی ان پر واضح نہ ہوئی۔ پھر ایک دن موقع پا کر بیچارے محمود کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ شامت اعمال بیچارا سینما دیکھنے چلا گیا۔ قصور اس سے یہ ہوا کہ ایک روپے والے درجے میں جانے کی بجائے دو روپے والے درجے میں چلا گیا۔ بس اتنی سی فضول خرچی پر اسے عمر بھر کو سینما جانے کی ممانعت ہوگئی ہے۔
لیکن اس سے بھی گھر والے متاثر نہ ہوئے۔ ان کے رویئے سے مجھے فوراً احساس ہوا کہ ایک روپے اور دو روپے کی بجائے آٹھ آنے اور ایک روپیہ کہنا چاہیئے تھا۔
ان ہی ناکام کوششوں میں تعطیلات گزر گئیں اور ہم نے پھر ماموں کی چوکھٹ پر آکر سجدہ کیا۔
اگلی گرمیوں میں جب ہم پھر گھر گئے تو ہم نے ایک نیا ڈھنگ اختیار کیا۔ دو سال تعلیم پانے کے بعد ہمارے خیالات میں پختگی سی آگئی تھی پچھلے سال ہاسٹل کی حمایت میں جو دلائل ہم نے پیش کی تھیں، وہ اب ہمیں نہایت بودی معلوم ہونے لگی تھیں۔ اب کے ہم نے اس موضوع پر ایک لیکچر دیا کہ جو شخص ہاسٹل کی زندگی سے محروم ہو اس کی شخصیت نامکمل رہ جاتی ہے۔ ہاسٹل سے باہرشخصیت پنپنے نہیں پاتی۔ چند دن تو ہم اس پر فلسفیانہ گفتگو کرتے رہے۔ اور نفسیات کے نقطہ نظر سے اس پر بہت کچھ روشنی ڈالی۔ لیکن ہمیں محسوس ہوا کہ بغیر مثالوں کے کام نہ چلے گا۔ اور جب مثالیں دینے کی نوبت آئی، تو ذرا وقت محسوس ہوئی۔ کالج کے جن طلبا کے متعلق میرا ایمان تھا کہ وہ زبردست شخصیتوں کے مالک ہیں، ان کی زندگی کچھ ایسی نہ تھی کہ والدین کے سامنے بطور نمونے کے پیش کی جاسکے۔ ہر وہ شخص جسے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملاہے، جانتا ہے کہ “والدینی اغراض” کے ليے واقعات کو ایک نئے اور اچھوتے پیرائے میں بیان کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن اس پیرائے کا سوجھ جانا الہام اور اتفاق پر منحصر ہے۔ بعض روشن خیال بیٹے اپنے والدین کو اپنے حیرت انگیز اوصاف کا قائل نہیں کرسکتے اور بعض نالائق سے نالائق طالب علم والدین کو کچھ اس طرح مطمئن کردیتے ہیں کہ ہر ہفتے ان کے نام منی آرڈر چلا آتا ہے۔
بناداں آں چناں روزی رساند
کہ دانا اندراں حیران بماند
جب ہم ڈیڑھ مہینے تک شخصیت اور ہاسٹل کی زندگی پر اس کا انحصار، ان پر مضمونوں پر وقتاًفوقتاً اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے تو ایک والد نے پوچھا:
“تمہارا شخصیت سے آخر مطلب کیا ہے؟”
میں تو خدا سے یہی چاہتا تھا کہ وہ مجھے عرض ومعروض کا موقع دیں۔ میں نے کہا۔ “دیکھئے نا۔ مثلاً ایک طالب علم ہے، وہ کالج میں پڑھتا ہے۔ اب ایک تو اس کا دماغ ہے دوسرا اس کا جسم ہے۔ جسم کی صحت بھی ضروری ہے۔ اور دماغ کی صحت تو ضروری ہے ہی۔ لیکن ان کے علاوہ ایک اور بات بھی ہوتی ہے جس سے آدمی کو پہنچانا جاتا ہے۔ میں اس کو شخصیت کہتا ہوں۔ اس کا تعلق نہ جسم سے ہوتا ہے نہ دماغ سے، ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی کی جسمانی صحت بالکل خراب ہو اور اس کا دماغ بھی بالکل بیکار ہو، لیکن پھر بھی اس کی شخصیت۔۔۔ نہ خیر دماغ تو بیکار نہیں ہونا چاہیئے ورنہ انسان خبطی ہوتا ہے لیکن پھر بھی اگر ہو بھی۔ تو بھی۔۔۔ گویا شخصیت ایک ایسی چیز ہے۔۔۔ ٹھہرئیے، میں ابھی ایک منٹ میں آپ کو بتاتا ہوں۔”
ایک منٹ کی بجائے والد نے مجھے آدھ گھنٹے کی مہلت دی جس کے دوران میں وہ خاموشی کے ساتھ میرے جواب کا انتظار کرتے رہے، اس کے بعد وہاں سے اُٹھ کر چلاآیا۔
تین چار دن کے بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا، مجھے شخصیت نہیں سیرت کہنا چاہیئے۔ شخصیت ایک بےرنگ سا لفظ ہے۔ سیرت کے لفظ سے نیکی ٹپکتی ہے۔ چنانچہ میں نے سیرت کو اپنا تکیہ کلام بنالیا۔ لیکن یہ بھی مفید ثابت نہ ہوا۔ والد کہنے لگے۔ “کیا سیرت سے تمہارا مطلب چال چلن ہے یا کچھ اور؟” میں نے کہا “چال چلن کہہ لیجیئے۔”
“تو گویا دماغی اور جسمانی صحت کے علاوہ چال چلن بھی اچھا ہونا چاہیئے۔”
میں نے کہا۔ “بس یہی تو میرا مطلب ہے۔”
“اور یہ چال چلن ہاسٹل میں رہنے سے بہت اچھا ہوجاتا ہے!”
میں نسبتاً نحیف آواز سے کہا۔ “جی ہاں۔”
“یعنی ہاسٹل میں رہنے والے طالب علم نماز، روزے کے زیادہ پابند ہوتے ہیں، ملک کی زیادہ خدمت کرتے ہیں ، سچ زیادہ بولتے ہیں، نیک زیادہ ہوتے ہیں۔”
میں نے کہا۔ “جی ہاں”۔
کہنے لگے۔ “وہ کیوں؟”
اس سوال کا جواب ایک دفعہ پرنسپل صاحب نے تقسیم انعامات کے جلسے میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا تھا، اے کاش میں نے اس وقت توجہ سے سنا ہوتا!
اس کے بعد پھر سال بھر میں ماموں کے گھر میں “زندگی ہے تو خزاں کے بھی گزر جائیں کے دن۔” گاتا رہا۔
ہر سال میری درخواست کا یہی حشر ہوتا رہا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔ ہر سال ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ لیکن اگلے سال گرمی کی چھٹیوں میں پہلے سے بھی زیادہ شدومد کے ساتھ تبلیغ کا کام جاری رکھتا۔ ہر دفعہ نئی نئی دلیلیں پیش کرتا، نئی نئی مثالیں کام میں لاتا۔ جب شخصیت اور سیرت والے مضمون سے کام نہ چلا تو اگلے سال ہاسٹل کی زندگی کے انضباط اور باقاعدگی پر تبصرہ کیا۔ اس سے اگلے سال یہ دلیل پیش کی کہ ہاسٹل میں رہنے سے پروفیسروں کے ساتھ ملنے جلنے کے موقعے زیادہ ملتے رہتے ہیں۔ اور ان “بیرون از کالج” ملاقاتوں سے انسان پارس ہوجاتا ہے۔ اس سے اگلے سال یہ مطلب یوں ادا کیا کہ ہاسٹل کی آب وہوا بڑی اچھی ہوتی ہے۔ صفائی کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے۔ مکھیاں اور مچھر مارنے کے ليے کئی کئی افسر مقرر ہیں۔ اس سے اگلے سال یوں سخن پیرا ہوا کہ جب بڑے بڑے حکام کالج کا معائنہ کرتے آتے ہیں تو ہاسٹل میں رہنے والے طلباء سے فرداً فرداً ہاتھ ملاتے ہیں، اس سے رسوخ بڑھتا ہے لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیا، میری تقریروں میں جوش بڑھتا گیا، معقولیت کم ہوتی گئی۔ شروع شروع میں ہاسٹل کے مسئلے پر والد مجھ سے باقاعدہ بحث کیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے یک لفظی انکار کا رویہ اختیار کیا۔ پھر ایک آدھ سال مجھے ہنس کے ٹالتے رہے۔ اور آخر میں یہ نوبت آن پہنچی کہ وہ ہاسٹل کا نام سنتے ہی طنز آمیز قہقہے کے ساتھ مجھے تشریف لے جانے کا حکم دے دیا کرتے تھے۔
ان کے اس سلوک سے آپ یہ اندازہ نہ لگائیے کہ ان کی شفقت کچھ کم ہوگئی تھی، ہر گز نہیں حقیقت صرف اتنی ہے کہ بعض ناگوار حادثات کی وجہ سے گھر میں میرا اقتدار کچھ کم ہوگیا تھا۔
اتفاق یہ ہوا کہ میں نے جب پہلی مرتبہ بی۔اے کا امتحان دیا، تو فیل ہوگیا۔ اگلے سال ایک مرتبہ پھر یہی واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد بھی جب تین چار دفعہ یہی قصہ ہوا تو گھر والوں نے میری امنگوں میں دلچسپی لینی چھوڑ دی۔ بی۔اے میں پےدرپے فیل ہونے کی وجہ سے میری گفتگو میں ایک سوز تو ضرور آگیا تھا، لیکن کلام میں وہ پہلے جیسی شوکت اور میری رائے وہ پہلی جیسی وقعت اب نہ رہی تھی۔
میں نے زمانے طالب علمی کے اس دور کا حال ذرا تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ اس سے ایک تو آپ میری زندگی کے نشیب و فراز سے اچھی طرح واقف ہوجائیں گے اور اس کے علاوہ اس سے یونیورسٹی کی بعض بےقاعدگیوں کا راز بھی آپ پر آشکار ہو جائے گا۔
میں پہلے سال بی۔اے میں کیوں فیل ہوا؟ اس کا سمجھنا بہت آسان ہے۔ بات یہ ہوئی کہ جب ہم نے ایف۔اے کا امتحان دیا تو چونکہ ہم نے کام خوب دل لگا کر کیا تھا، اس ليے ہم اس میں “کچھ” پاس ہی ہوگئے۔ بہرحال فیل نہ ہوئے، یونیورسٹی نے یوں تو ہمارا ذکر بڑے اچھے الفاظ میں کیا لیکن ریاضی کے متعلق یہ ارشاد ہوا کہ صرف اس مضمون کا امتحان ایک آدھ دفعہ پھر دے ڈالو۔ (ایسے امتحان کو اصطلاحاً کمپارٹمنٹ کا امتحان کہا جاتا ہے۔ شاید اس ليے کہ بغیر رضامندی اپنے ہمراہی مسافروں کے اگر کوئی اس میں سفر کر رہے ہوں، نقل نویسی کی سخت ممانعت ہے۔)
اب جب ہم بی۔اے میں داخل ہونے لگے تو ہم نے یہ سوچا کہ بی۔اے میں ریاضی لیں گے۔ اس طرح سے کمپارٹمنٹ کے امتحان کے ليے فالتو کام نہ کرنا پڑےگا۔ لیکن ہمیں سب لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ تم ریاضی مت لو۔ جب ہم نے اس کی وجہ پوچھی تو کسی نے ہمیں کوئی معقول جواب نہ دیالیکن جب پرنسپل صاحب نے بھی مشورہ دیا تو ہم رضامند ہوگئے۔ چنانچہ بی۔اے میں ہمارے مضامین انگریزی، تاریخ اور فارسی قرار پائے۔ ساتھ ساتھ ہم ریاضی کے امتحان کی بھی تیاری کرتے رہے۔ گویا ہم تین کی بجائے چار مضمون پڑھ رہے تھے۔ اس طرح سے جو صورت حال پیدا ہوئی اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنہیں یونیورسٹی کے امتحانات کا کافی تجربہ ہے۔ ہماری قوت مطالعہ منتشر ہوگئی اور خیالات میں پراگندگی پیدا ہوئی۔ اگر مجھے چار کی بجائے صرف تین مضامین پڑھنے ہوتےتو جو وقت میں فی الحال چوتھے مضمون کو دے رہا تھا۔ وہ بانٹ کر ان تین مضامین کو دیتا۔ آپ یقین مانيئے اس سے بڑا فرق پڑ جاتا اور فرض کیا اگر میں وہ وقت تینوں کو بانٹ کر نہ دیتا بلکہ سب کا سب ان تینوں میں سے کسی ایک مضمون کے ليے وقف کردیتا تو کم از کم اس مضمون میں تو ضرور پاس ہو جاتا۔ لیکن موجودہ حالات میں تو وہی ہونا لازم تھا جو ہوا۔ یعنی یہ کہ میں کسی مضمون پر بھی کماحقہ توجہ نہ کرسکا۔ کمپارٹمنٹ کے امتحان میں تو پاس ہوگیا لیکن بی۔اے میں ایک تو انگریزی میں فیل ہوا۔ وہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ انگریزی ہماری مادری زبان نہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ اور فارسی میں بھی فیل ہوگیا۔ اب آپ ہی سوچئے ناکہ جو وقت مجھے کمپارٹمنٹ کے امتحان پر صرف کرنا پڑا وہ اگر میں وہاں صرف نہ کرتا بلکہ اس کے بجائے۔۔۔ مگر خیر یہ بات میں پہلے عرض کرچکا ہوں۔
فارسی میں کسی ایسے شخص کا فیل ہونا جو ایک علم دوست خاندان سے تعلق رکھتا ہو لوگوں کے ليے ازحد حیرت کا موجب ہوا۔ اور سچ پوچھیئے تو ہمیں بھی اس پر سخت ندامت ہوئی۔ لیکن خیر اگلے سال یہ ندامت دھل گئی۔ اور ہم فارسی میں پاس ہوگئے اور اس سے اگلے سال تاریخ میں پاس ہوگئے اور اس سے اگلے سال انگریزی میں۔
اب قاعدے کی رو سے ہمیں بی۔اے کا سرٹیفکیٹ مل جانا چاہیئے تھا۔ لیکن یونیورسٹی کی اس طفلانہ ضد کا کیا علاج کہ تینوں مضمونوں میں بیک وقت پاس ہونا ضروری ہے۔ بعض طبائع ایسی ہیں کہ جب تک یکسوئی نہ ہو، مطالعہ نہیں کرسکتے۔ کیا ضروری ہے کہ ان کے دماغ کو زبردستی ایک کھچڑی سا بنا دیا جائے۔ ہم نے ہر سال صرف ایک مضمون پر اپنی تمام تر توجہ دی اور اس میں وہ کامیابی حاصل کی کہ بایدوشاید، باقی دو مضمون ہم نے نہیں دیکھے لیکن ہم نے یہ تو ثابت کردیا کہ جس مضمون میں چاہیں پاس ہوسکتے ہیں۔
اب تک تو دو دو مضمونوں میں فیل ہوتے رہے تھے لیکن اس کے بعد ہم نے تہیہ کرلیا کہ جہاں تک ہوسکا اپنے مطالعے کو وسیع کریں گے۔ یونیورسٹی کے بیہودہ اور بےمعنی قواعد کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں بناسکتے تو اپنی طبعیت پر ہی کچھ زور ڈالیں۔ لیکن جتنا غور کیا اس نتیجے پر پہنچے کہ تین مضمونوں میں بیک وقت پاس ہونا فی الحال مشکل ہے۔ پہلے دو میں پاس ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ چنانچہ ہم پہلے سال انگریزی اور فارسی میں پاس ہوگئے۔ اور دوسرے سال فارسی اور تاریخ میں۔
جن جن مضامین میں ہم جیسے جیسے فیل ہوئے وہ اس نقشے سے ظاہر ہیں:
(۱) انگریزی ۔۔۔ تاریخ۔۔۔ فارسی
(۲) انگریزی۔۔۔ تاریخ
(۳) انگریزی۔۔۔ فارسی
(۴) تاریخ۔۔۔ فارسی
گویا جن جن طریقوں سے ہم دو دو مضامین میں فیل ہوسکتے تھے وہ ہم نے سب پورے کر دیئے۔ اس کے بعد ہمارے ليے دو مضامین میں فیل ہونا ناممکن ہوگیا۔ اور ایک ایک مضمون میں فیل ہونے کی باری آئی۔ چنانچہ اب ہم نے مندرجہ ذیل نقشے کے مطابق فیل ہونا شروع کردیا:
(۵) تاریخ میں فیل
(۶) انگریزی میں فیل
اتنی دفعہ امتحان دے چکنے کے بعد جب ہم نے اپنے نتیجوں کو یوں اپنے سامنے رکھ کر غور کیا تو ثابت ہوا کہ غم کی رات ہونے والی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اب ہمارے فیل ہونے کا صرف ایک ہی طریقہ باقی رہ گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ فارسی میں فیل ہوجائیں۔ لیکن اس کے بعد تو پاس ہونا لازم ہے ہرچند کہ یہ سانحہ ازحد جانکاہ ہوگا۔ لیکن اس میں یہ مصلحت تو ضرور مضمر ہے کہ اس سے ہمیں ایک قسم کا ٹیکا لگ جائے گا۔ بس یہی ایک کسر باقی رہ گئی ہے۔ اس سال فارسی میں فیل ہوں گے اور پھر اگلے سال قطعی پاس ہوجائیں گے۔ چنانچہ ساتویں دفعہ امتحان دینے کے بعد ہم بیتابی سے فیل ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ یہ انتظار دراصل فیل ہونے کا انتظار نہ تھا بلکہ اس بات کا انتظار تھا کہ اس فیل ہونے کے بعد ہم اگلے سال ہمیشہ کے ليے بی۔اے ہوجائیں گے۔
ہر سال امتحان کے بعد جب گھر آتا تو والدین کو نتیجے کے ليے پہلے ہی سے تیار کردیتا۔ رفتہ رفتہ نہیں بلکہ یکلخت اور فوراً، رفتہ رفتہ تیار کرنے سے خواہ مخواہ وقت ضائع ہوتا ہے۔ اور پریشانی مفت میں طول کھینچتی ہے۔ ہمارا قاعدہ یہ تھا کہ جاتے ہی کہہ دیا کرتے تھے کہ اس سال تو کم از کم پاس نہیں ہوسکتے، والدین کو اکثر یقین نہ آتا۔ ایسے موقعوں پر طبعیت کو بڑی الجھن ہوتی ہے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے میں پرچوں میں کیا لکھ کر آیا ہوں۔ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ممتحن لوگ اگر نشے کی حالت میں پرچے نہ دیکھیں تو میرا پاس ہونا قطعاً ناممکن ہے۔ چاہتا ہوں کہ میرے تمام بہی خواہوں کو بھی اس بات کا یقین ہوجائے تاکہ وقت پر انہیں صدمہ نہ ہو۔ لیکن بہی خوا ہ ہیں کہ میری تمام تشریحات کو محض کسر نفسی سمجھتے ہیں۔ آخری سالوں میں والد کو فوراً یقین آجایا کرتا تھا کیونکہ تجربہ سے ان پر ثابت ہوچکا تھا کہ میرا انداز غلط نہیں ہوتا،لیکن ادھر اُدھر کے لوگ “اجی نہیں صاحب” اجی کیا کہہ رہے ہو”۔ “اجی یہ بھی کوئی بات ہے”۔ ایسے فقروں سے ناک میں دم کردیتے۔ بہرحال اب کے پھر گھر پہنچتے ہی ہم نے حسب دستور اپنے فیل ہونے کی پیشن گوئی کردی۔ دل کو یہ تسلی تھی کہ بس یہ آخری دفعہ ہے۔ اگلے سال ایسی پیش گوئی کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہوگی۔
ساتھ ہی خیال آیاکہ وہ ہاسٹل کا قصہ پھر شروع کرنا چاہیئے۔ اب تو کالج میں صرف ایک ہی سال باقی رہ گیا ہے۔ اب بھی ہاسٹل میں رہنا نصیب نہ ہواتو عمر بھر گویا آزادی سے محروم رہے۔ گھر سے نکلے تو ماموں کے ڈربے میں اور جب ماموں کے ڈربے سے نکلے تو شاید اپنا ایک ڈربا بنانا پڑےگا۔ آزادی کا ایک سال۔ صرف ایک سال اور یہ آخری موقعہ ہے۔
آخری درخواست کرنے سے پہلے میں نے تمام ضروری مصالحہ بڑی احتیاط سے جمع کیا، جن پروفیسروں سے مجھے اب ہم عمری کا فخر حاصل تھا، ان کے سامنے نہایت بےتکلفی سے اپنی آرزوؤں کا اظہار کیا اور ان سے والد کو خطوط لکھوائے کہ اگلے سال لڑکے کو ضرور آپ ہاسٹل میں بھیج دیں۔ بعض کامیاب طلباء کے والدین سے بھی اس مضمون کی عرضداشتیں بھجوائیں۔ خود اعدادوشمار سے ثابت کیا کہ یونیورسٹی سے جتنے لڑکے پاس ہوتے ہیں، ان میں سے اکثر ہاسٹل میں رہتے ہیں، اور یونیورسٹی کا کوئی وظیفہ یا تمغہ یا انعام تو کبھی ہاسٹل سے باہر گیا ہی نہیں۔ میں حیران ہوں کہ یہ دلیل مجھے اس سے پیشتر کبھی کیوں نہ سوجھی تھی۔ کیونکہ یہ بہت کارگر ثابت ہوئی۔ والد کا انکار نرم ہوتے ہوتے غورغوص میں تبدیل ہوگیا، لیکن پھر بھی ان کے دل سے شک رفع نہ ہوا۔ کہنے لگے۔ “میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جس لڑکے کو پڑھنے کا شوق ہو وہ ہاسٹل کی بجائے گھر پر کیوں نہیں پڑھ سکتا۔”
میں نے جواب دیا کہ ہاسٹل میں ایک علمی فضا ہوتی ہے، جو ارسطو اور افلاطون کے گھر کے سوا اور کسی کے گھر میں دستیاب نہیں ہوسکتی۔ ہاسٹل میں جسے دیکھو بحر علوم میں غوطہ زن نظر آتا ہے باوجود اس کے کہ ہر ہاسٹل میں دو دو تین تین سو لڑکے رہتے ہیں پھر بھی وہ خموشی طاری ہوتی ہے کہ قبرستان معلوم ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنے پنے کام میں لگا رہتا ہے۔ شام کے وقت ہاسٹل کے صحن میں جابجا طلبا علمی مباحثوں میں مشغول نظر آتے ہیں۔ علے الصباح ہر ایک طالب علم کتاب ہاتھ میں ليے ہاسٹل کے چمن میں ٹہلتا نظر آتا ہے۔ کھانے کے کمرے میں، کامن روم میں، غسل خانوں میں، برآمدوں میں، ہر جگہ لوگ فلسفے اور ریاضی اور تاریخ کی باتیں کرتے ہیں، جن کو ادب انگریزی کا شوق ہے وہ دن رات آپس میں شیکسپیئر کی طرح گفتگو کرنے کی مشق کرتے ہیں۔ ریاضی کے طلباء اپنے ہر ایک خیال کو الجبرے میں ادا کرنے کی عادت ڈال لیتے ہیں۔ فارسی کے طلباء رباعیوں میں تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔ تاریخ کے دلدادہ۔۔۔”
والد نے اجازت دے دی۔
اب ہمیں یہ انتظار کہ کب فیل ہوں، اور کب اگلے سال کے ليے عرضی بھیجیں۔ اس دوران میں ہم نے ان تمام دوستوں سے خط وکتابت کی جن کے متعلق یقین تھا کہ اگلے سال پھر ان کی رفاقت نصیب ہوگی اور انہیں یہ مژدہ سنایا کہ آئندہ سال ہمیشہ کے ليے کالج کی تاریخ میں یادگار رہے گا کیونکہ ہم تعلیمی زندگی کا ایک وسیع تجربہ اپنے ساتھ ليے ہاسٹل میں آرہے ہیں۔ جس سے ہم طلباء کی نئی پود کو مفت مستفید فرمائیں گے۔ اپنے ذہن میں ہم نے ہاسٹل میں اپنی حیثیت ایک مادر مہربان کی سی سوچ لی جس کے اردگرد ناتجربہ کار طلباء مرغی کے بچوں کی طرح بھاگتے پھریں گے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب جو کسی زمانے میں ہمارے ہم جماعت رہ چکے تھے لکھ بھیجا کہ جب ہم ہاسٹل میں آئیں تو فلاں فلاں مراعات کی توقع آپ سے رکھیں گے، اور فلاں فلاں قواعد سے اپنےآپ کو مستثنیٰ سمجھیں گے۔ اطلاعاً عرض ہے۔ اور یہ سب کچھ کرچکنے کے بعد ہماری بدنصیبی دیکھئے کہ جب نتیجہ نکلا تو ہم پاس ہوگئے۔
ہم پہ تو جو ظلم ہوا سو ہوا، یونیورسٹی والوں کی حماقت ملاحظہ فرمائیے کہ ہمیں پاس کرکے اپنی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔
سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
****
وہ حضرت بھی معلوم ہوتا ہے نفلوں کے بھوکے بیٹھے تھے۔ دوسرے دن اُٹھتے ہی انہوں نے ایشور کا نام لے کر ہمارے دروازے پر مکابازی شروع کردی کچھ دیر تک تو ہم سمجھے کہ عالم خواب ہے۔ ابھی سے کیا فکر، جاگیں تو لاحول پڑھ لیں گے۔ لیکن یہ گولہ باری لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی گئی۔ اور صاحب جب کمرے کی چوبی دیواریں لرزنے لگیں، صراحی پر رکھا گلاس جلترنگ کی طرح بجنے لگا اور دیوار پر لٹکا ہوا کیلنڈر پنڈولم کی طرح ہلنے لگا تو بیداری کا قائل ہونا ہی پڑا۔ مگر اب دروازہ ہے کہ لگاتار کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔ میں کیا میرے آباؤاجداد کی روحیں اور میری قسمت خوابیدہ تک جاگ اُٹھی ہوگی۔ بہتر آوازیں دیتا ہوں۔۔۔ “اچھا!۔۔۔ اچھا!۔۔۔ تھینک یو!۔۔۔ جاگ گیا ہوں!۔۔۔ بہت اچھا! نوازش ہے!” آنجناب ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔ خدایا کس آفت کا سامنا ہے؟ یہ سوتے کو جگا رہے ہیں یا مردے کو جلا رہے ہیں؟ اور حضرت عیسیٰ بھی تو بس واجبی طور پر ہلکی سی آواز میں “قم” کہہ دیا کرتے ہوں گے، زندہ ہوگیا تو ہوگیا، نہیں تو چھوڑ دیا۔ کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کے پڑجایا کرتے تھے؟ توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے؟ یہ تو بھلا ہم سے کیسے ہوسکتا تھا کہ اُٹھ کر دروازے کی چٹخنی کھول دیتے، پیشتر اس کے کہ بستر سے باہر نکلیں، دل کو جس قدر سمجھانا بجھانا پڑتا ہے۔ اس کا اندازہ کچھ اہل ذوق ہی لگا سکتے ہیں۔ آخرکار جب لیمپ جلایا اور ان کو باہر سے روشنی نظر آئی، تو طوفان تھما۔
اب جو ہم کھڑکی میں سے آسمان کو دیکھتے ہیں تو جناب ستارے ہیں، کہ جگمگا رہے ہیں! سوچا کہ آج پتہ چلائیں گے، یہ سورج آخر کس طرح سے نکلتا ہے۔ لیکن جب گھوم گھوم کر کھڑکی میں سے اور روشندان میں سے چاروں طرف دیکھا اور بزرگوں سے صبح کاذب کی جتنی نشانیاں سنی تھیں۔ ان میں سے ایک بھی کہیں نظر نہ آئی، تو فکر سی لگ گئی کہ آج کہیں سورج گرہن نہ ہو؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا، تو پڑوسی کو آواز دی۔ “لالہ جی!۔۔۔ لالہ جی؟”
جواب آیا۔ “ہوں۔”
میں نے کہا “آج یہ کیا بات ہے۔ کچھ اندھیرا اندھیرا سا ہے؟”
کہنے لگے “تو اور کیا تین بجے ہی سورج نکل آئے؟”
تین بجے کا نام سن کر ہوش گم ہوگئے، چونک کر پوچھا۔ “کیا کہا تم نے؟ تین بجے ہیں۔”
کہنے لگے۔ “تین۔۔۔ تو۔۔۔ نہیں۔۔۔ کچھ سات۔۔۔ ساڑھے سات۔۔۔ منٹ اوپر تین ہیں۔”
میں نے کہا۔ “ارے کم بخت، خدائی فوجدار، بدتمیز کہیں کے، میں نے تجھ سے یہ کہا تھا کہ صبح جگا دینا، یا یہ کہا تھا کہ سرے سے سونے ہی نہ دینا؟ تین بجے جاگنا بھی کوئی شرافت ہے؟ ہمیں تو نے کوئی ریلوے گارڈ سمجھ رکھا ہے؟ تین بجے ہم اُٹھ سکا کرتے تو اس وقت دادا جان کے منظور نظر نہ ہوتے؟ ابے احمق کہیں کے تین بجے اُٹھ کے ہم زندہ رہ سکتے ہیں؟ امیرزادے ہیں، کوئی مذاق ہے، لاحول ولاقوة”۔
دل تو چاہتا تھا کہ عدم تشدد وتشدد کو خیرباد کہہ دوں لیکن پھر خیال آیا کہ بنی نوع انسان کی اصلاح کا ٹھیکہ کوئی ہمیں نے لے رکھا ہے؟ ہمیں اپنے کام سے غرض۔ لیمپ بجھایا اور بڑبڑاتے ہوئے پھر سوگئے۔
اور پھر حسب معمول نہایت اطمینان کے ساتھ بھلے آدمیوں کی طرح اپنے دس بجے اُٹھے، بارہ بجے تک منھ ہاتھ دھویا اور چار بجے چائے پی کر ٹھنڈی سڑک کی سیر کو نکل گئے۔
شام کو واپس ہاِسٹل میں وارد ہوئے۔ جوش شباب تو ہے ہی اس پر شام کا ارمان انگیز وقت۔ ہوا بھی نہایت لطیف تھی۔ طبعیت بھی ذرا مچلی ہوئی تھی۔ ہم ذرا ترنگ میں گاتے ہوئے کمرےمیں داخل ہوئے کہ
بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
کہ اتنے میں پڑوسی کی آواز آئی۔ “مسٹر”۔
ہم اس وقت ذرا چٹکی بجانے لگے تھے۔ بس انگلیاں وہیں پر رک گئیں۔ اور کان آواز کی طرف لگ گئے۔ ارشاد ہوا “یہ آپ گا رہے ہیں؟” (زور “آپ” پر)
میں نے کہا۔ “اجی میں کس لائق ہوں۔ لیکن خیر فرمائیے؟” بولے “ذرا۔۔۔ وہ میں۔۔۔ میں ڈسٹرب ہوتا ہوں ۔ بس صاحب۔ ہم میں جو موسیقیت کی روح پیدا ہوئی تھی فوراً مر گئی۔ دل نے کہا۔ “اونابکار انسان دیکھ پڑھنے والے یوں پڑھتے ہیں “صاحب، خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی کہ “خدایا ہم بھی اب باقاعدہ مطالعہ شروع کرنے والے ہیں۔ہماری مدد کر اور ہمیں ہمت دے۔”
آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کرکے میز کے سامنے آبیٹھے، دانت بھینچ لئے، نکٹائی کھول دی، آستینیں چڑھا لیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آيا کہ کریں کیا؟ سامنے سرخ سبز، زرد سب ہی قسم کی کتابوں کا انبار لگا تھا۔ اب ان میں سے کوئی سی پڑھیں؟ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کتابوں کو ترتیب سے میز پر لگادیں کہ باقاعدہ مطالعہ کی پہلی منزل یہی ہے۔
بڑی تقطیع کی کتابوں کو علیحدہ رکھ دیا۔ چھوٹی تقطیع کی کتابوں کو سائز کے مطابق الگ قطار میں کھڑا کردیا۔ ایک نوٹ پیپر پر ہر ایک کتاب کے صفحوں کی تعداد لکھ کر سب کو جمع کیا پھر ۱۵۔اپریل تک کے دن گنے۔ صفحوں کی تعداد کو دنوں کی تعداد پر تقسیم کیا۔ ساڑھے پانچ سو جواب آیا، لیکن اضطراب کی کیا مجال جو چہرے پر ظاہر ہونے پائے۔ دل میں کچھ تھوڑا سا پچھتائے کہ صبح تین بجے ہی کیوں نہ اُٹھ بیٹھے لیکن کم خوابی کے طبی پہلو پر غور کیا۔ تو فوراً اپنے آپ کو ملامت کی۔ آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ تین بجے اُٹھنا تو لغویات ہےالبتہ پانچ، چھ، سات بجے کے قریب اُٹھنا معقول ہوگا۔ صحت بھی قائم رہے گی، اور امتحان کی تیاری بھی باقاعدہ ہوگی۔ ہم خرماد ہم ثواب۔
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سویرے اُٹھنا ہو تو جلدی ہی سو جانا چاہیئے۔ کھانا باہر سے ہی کھا آئے تھے۔ بستر میں داخل ہوگئے۔
چلتے چلتے خیال آیا، کہ لالہ جی سے جگانے کے ليے کہہ ہی نہ دیں؟ یوں ہماری اپنی قوت ارادی کافی زبردست ہے جب چاہیں اُٹھ سکتے ہیں، لیکن پھر بھی کیا ہرج ہے؟
ڈرتے ڈرتے آواز دی۔ “لالہ جی!”
انہوں پتھر کھینچ مارا “یس!”
ہم اور بھی سہم گئے کہ لالہ جی کچھ ناراض معلوم ہوتے ہیں، تتلا کے درخواست کی کہ لالہ جی، صبح آپ کو بڑی تکلیف ہوئی، میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ کل اگر ذرا مجھے چھ بجے یعنی جس وقت چھ بجیں۔۔۔”
جواب ندارد۔
میں نے پھر کہا “جب چھ بج چکیں تو۔۔۔ سنا آپ نے؟”
چپ۔
“لالہ جی!”
کڑکتی ہوئی آواز نے جواب دیا۔ “سن لیا سن لیا چھ بجے جگا دوں گا۔ تھری گاما پلس فور ایلفا پلس۔۔۔”
“ہم نے کہا ب۔۔۔ ب۔۔۔ ب۔۔۔ بہت اچھا۔ یہ بات ہے۔”
توبہ! خدا کسی کا محتاج نہ کرے۔
لالہ جی آدمی بہت شریف ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق دوسرے دن صبح چھ بجے انہوں نے دروازو ں پر گھونسوں کی بارش شروع کردی۔ ان کا جگانا تو محض ایک سہارا تھا ہم خود ہی انتظار میں تھے کہ یہ خواب ختم ہولے تو بس جاگتے ہیں۔ وہ نہ جگاتے تو میں خود ایک دو منٹ کے بعد آنکھیں کھول دیتا۔ بہر صورت جیسا کہ میرا فرض تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس شکل میں قبول کیا کہ گولہ باری بند کردی۔
اس کے بعد کے واقعات ذرا بحث طلب سے ہیں اور ان کے متعلق روایات میں کسی قدر اختلافات ہے بہرحال اس بات کا تو مجھے یقین ہے۔ اور میں قسم بھی کھا سکتا ہوں کہ آنکھیں میں نے کھول دی تھیں۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ ایک نیک اور سچے مسلمان کی طرح کلمہ شہادت بھی پڑھا۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ اُٹھنے سے پیشتر دیباچے کے طور پر ایک آدھ کروٹ بھی لی۔ پھر کا نہیں پتہ۔ شاید لحاف اوپر سے اتار دیا۔ شاید سر اس میں لپیٹ دیا۔ یا شاید کھانسایا خراٹا لیا۔ خیر یہ تو یقین امر ہے کہ دس بجے ہم بالکل جاگ رہے تھے۔ لیکن لالہ جی کے جگانے کے بعد اور دس بجے سے پیشتر خدا جانے ہم پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ نہیں ہمارا خیال ہے پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ بہرصورت یہ نفسیات کا مسئلہ ہے جس میں نہ آپ ماہر ہیں نہ میں۔ کیا پتہ، لالہ جی نے جگایا ہی دس بجے ہو۔ یا اس دن چھ دیر میں بجے ہوں۔ خدا کے کاموں میں ہم آپ کیا دخل دے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے دل میں دن بھر یہ شبہ رہا کہ قصور کچھ اپنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جناب شرافت ملاحظہ ہو، کہ محض اس شبہ کی بناء پر صبح سے شام تک ضمیر کی ملامت سنتا رہا۔ اور اپنے آپ کو کوستا رہا۔ مگر لالہ جی سے ہنس ہنس کر باتیں کیں ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور اس خیال سے کہ ان کی دل شکنی نہ ہو، حد درجے کی طمانیت ظاہر کی کہ آپ کی نوازش سے میں نے صبح کا سہانا اور روح افزا وقت بہت اچھی طرح صرف کیا ورنہ اور دنوں کی طرح آج بھی دس بجے اُٹھتا۔ “لالہ جی صبح کے وقت دماغ کیا صاف ہوتا ہے، جو پڑھو خدا کی قسم فوراً یاد ہوجاتا ہے۔ بھئی خدا نے صبح بھی کیا عجیب چیز پیدا کی ہے یعنی اگر صبح کے بجائے صبح صبح شام ہوا کرتی تو دن کیا بری طرح کٹا کرتا۔”
لالہ جی نے ہماری اس جادوبیانی کی داد یوں دی کہ آپ پوچھنے لگے۔ “تو میں آپ کو چھ بجے جگا دیا کروں نا؟”
میں نے کہا۔ “ہاں ہاں، واہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ بےشک۔”
شام کے وقت آنے والی صبح کے مطالعہ کے ليے دو کتابیں چھانٹ کر میزپر علیحدہ جوڑ دیں۔ کرسی کو چارپائی کے قریب سرکالیا۔ اوورکوٹ اور گلوبند کو کرسی کی پشت پر آویزاں کر لیا۔ کنٹوپ اور دستانے پاس ہی رکھ ليے۔ دیاسلائی کو تکیئے کے نیچے ٹٹولا۔ تین دفعہ آیت الکرسی پڑھی، اور دل میں نہایت ہی نیک منصوبے باندھ کر سوگیا۔
صبح لالہ جی کی پہلی دستک کے ساتھ ہی جھٹ آنکھ کھل گئی، نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ لحاف کی ایک کھڑکی میں سے ان کو “گڈمارننگ” کیا، اور نہایت بیدارانہ لہجے میں کھانسا، لالہ جی مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔
ہم نے اپنی ہمت اور اولوالعزمی کو بہت سراہا کہ آج ہم فوراً ہی جاگ اُٹھے۔ دل سے کہا کہ “دل بھیا، صبح اُٹھنا تو محض ذرا سی بات ہے ہم یوں ہی اس سے ڈرا کرتے تھے”۔ دل نے کہا “اور کیا؟ تمہارے تو یوں ہی اوسان خطا ہوجایا کرتے ہیں”۔ ہم نے کہا “سچ کہتے ہو یار، یعنی اگر ہم سستی اور کسالت کو خود اپنے قریب نہ آنے دیں تو ان کی کیا مجال ہے کہ ہماری باقاعدگی میں خلل انداز ہوں۔ اس وقت لاہور شہر میں ہزاروں ایسے کاہل لوگ ہوں گے جو دنیا ومافیہا سے بےخبر نیند کے مزے اُڑاتے ہوں گے۔ اور ایک ہم ہیں کہ ادائے فرض کی خاطر نہایت شگفتگہ طبعی اور غنچہ دہنی سے جاگ رہے ہیں۔ “بھئی کیا برخوردار سعادت آثار واقع ہوئے ہیں۔” ناک کو سردی سی محسوس ہونے لگی تو اسے ذرا یو ں ہی سا لحاف اوٹ میں کر لیا اور پھر سوچنے لگے۔۔۔ “خوب۔ تو ہم آج کیا وقت پر جاگے ہیں بس ذرا اس کی عاد ت ہوجائے تو باقاعدہ قرآن مجید کی تلاوت اور فجر کی نماز بھی شروع کردیں گے۔ آخر مذہب سب سے مقدم ہے ہم بھی کیا روزبروز الحاد کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں نہ خدا کا ڈر اور نہ رسول کا خوف۔ سمجھتے ہیں کہ بس اپنی محنت سے امتحان پاس کرلیں گے۔ اکبر بیچارا یہی کہتا کہتا مرگیا لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ چلی۔۔۔ (لحاف کانوں پر سرک آیا)۔۔۔ تو گویا آج ہم اور لوگوں سے پہلے جاگے ہیں۔۔۔ بہت ہی پہلے۔۔۔ یعنی کالج شروع ہونے سے بھی چار گھنٹے پہلے۔ کیا بات ہے! خداوندان کالج بھی کس قدر سست ہیں ایک مستعد انسان کو چھ بجے تک قطعی جاگ اُٹھنا چاہئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کالج سات بجے کیوں نہ شروع ہوا کرے۔۔۔ (لحاف سر پر)۔۔۔ بات یہ ہے کہ تہذیب جدید ہماری تمام اعلیٰ قوتوں کی بیخ کنی کر رہی ہے۔ عیش پسندی روزبروز بڑھتی جاتی ہے۔۔۔ (آنکھیں بند)۔۔۔ تو اب چھ بجے ہیں تو گویا تین گھنٹے تو متواتر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ پہلے کون سی کتابیں پڑھیں۔ شیکسپیئر یا ورڈزورتھ؟ میں جانوں شیکسپیئر بہتر ہوگا۔ اس کی عظیم الشان تصانیف میں خدا کی عظمت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اور صبح کے وقت الله میاں کی یاد سے بہتر چیز کیا ہوسکتی ہے؟ پھر خیال آیا کہ دن کو جذبات کے محشرستان سے شروع کرنا ٹھیک فلسفہ نہیں۔ ورڈزورتھ پڑھیں۔ اس کے اوراق میں فطرت کو سکون واطمینان میسر ہوگا اور دل اور دماغ نیچر کی خاموش دلآویزیوں سے ہلکے ہلکے لطف اندوز ہوں گے۔۔۔ لیکن ٹھیک ہی رہے گا شیکسپیئر۔۔۔ نہیں ورڈزورتھ۔۔۔ لیڈی میکبتھ۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ سبزہ زار۔۔۔ سنجر سنجر۔۔۔ بادبہاری۔۔۔ صید ہوس۔۔۔ کشمیر۔۔۔ میں آفت کا پرکالہ ہوں۔۔۔
یہ معمہ اب مابعد الطبعیات ہی سے تعلق رکھتا ہے کہ پھر جو ہم نے لحاف سے سر باہر نکالا اور ورڈزورتھ پڑھنے کا ارادہ کیا تو وہی دس بج رہے تھے۔ اس میں نہ معلوم کیا بھید ہے!
کالج ہال میں لالہ جی ملے۔ “مسٹر! صبح میں نے آپ کو پھر آواز دی تھی، آپ نے جواب نہ دیا؟”
میں نے زور کا قہقہہ لگا کر کہا۔ “اوہو۔ لالہ جی یاد نہیں۔ میں نے آپ کو گڈمارننگ کہا تھا؟ میں تو پہلے ہی سے جاگ رہا تھا”۔
بولے “وہ تو ٹھیک ہے لیکن بعد میں۔۔۔ اس کے بعد!۔۔۔ کوئی سات بجے کے قریب میں نے آپ سے تاریخ پوچھی تھی، آپ بولے ہی نہیں۔”
ہم نے نہایت تعجب کی نظروں سے ان کو دیکھا۔ گویا وہ پاگل ہوگئے ہیں۔ اور پھر ذرا متین چہرہ بنا کر ماتھے پر تیوریاں چڑھائےغوروفکر میں مصروف ہوگئے۔ ایک آدھ منٹ تک ہم اس تعمق میں رہے۔ پھر یکایک ایک محجومانہ اور معشوقانہ انداز سے مسکراکے کہا۔ “ہاں ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میں اس وقت۔۔۔ اے۔۔۔ اے، نماز پڑھ رہا تھا۔”
لالہ جی مرعوب سے ہو کر چل دیئے۔ اور ہم اپنے زہد واتقا کی مسکینی میں سر نیچا کئے کمرے کی طرف چلے آئے۔ اب یہی ہمارا روزمرہ کا معمول ہوگیا ہے۔ جاگنا نمبر ایک چھ بجے۔ جگانا نمبر دو دس بجے۔ اس دوران لالہ جی آواز دیں تو نماز۔
جب دل مرحوم ایک جہان آرزو تھا تو یوں جاگنے کی تمنا کیا کرتے تھے کہ “ہمارا فرق ناز محو بالش کمخواب” ہو اور سورج کی پہلی کرنیں ہمارے سیاہ پُرپیچ بالوں پر پڑ رہی ہیں۔ کمرے میں پھولوں کی بوئے سحری روح افزائیاں کر رہی ہو۔ نازک اور حسین ہاتھ اپنی انگلیوں سے بربط کے تاروں کو ہلکے ہلکے چھیڑ رہے ہوں۔ اور عشق میں ڈوبی ہوئی سریلی اور نازک آواز مسکراتی ہوئی گا رہی ہو!
تم جاگو موہن پیارے
خواب کی سنہری دھند آہستہ آہستہ موسیقی کی لہروں میں تحلیل ہوجائے اور بیداری ایک خوشگوار طلسم کی طرح تاریکی کے باریک نقاب کو خاموشی سے پارہ پارہ کردے چہرہ کسی کی نگاہ اشتیاق کی گرمی محسوس کر رہا ہو۔ آنکھیں مسحور ہو کر کھلیں اور چار ہوجائیں۔ دلآویز تبسم صبح کو اور بھی درخشندہ کردے۔ اور گیت “سانوری صورت توری من کو بھائی” کے ساتھ ہی شرم وحجاب میں ڈوب جائے۔
نصیب یہ ہے کہ پہلے “مسٹر! مسٹر!” کی آواز اور دروازے کے دنادن سامعہ نوازی کرتی ہے، اور پھر چار گھنٹے بعد کالج کا گھڑیال دماغ کے ریشے ریشے میں دس بجانا شروع کردیتا ہے۔ اور اس چار گھنٹے کے عرصہ میں گڑویوں کے گر گرنے۔ دیگچیوں کے اُلٹ جانے، دروازوں کے بند ہونے، کتابوں کے جھاڑنے، کرسیوں کے گھسیٹنے، کُلیاں اور غرغرے کرنے، کھنکھارنے اور کھانسنے کی آوازیں تو گویا فی البدیہہ ٹھمریاں ہیں۔ اندازہ کرلیجیئے کہ ان سازوں میں سُرتال کی کس قدر گنجائش ہے!
موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے
جب طبعیت کو دیکھتا ہوں میں
0 comments:
Post a Comment