Request

Zyada sy Zyada like [g+1] kr ky post ko Google pr recomment kry Shukria

29 Mar 2014

Famous poet Amrita Pritam-Sara Shagufta

Amrita Pritam-Sara Shagufta-----سارہ شگفتہ


The The promising young poetess from Pakistan was taken away by the cruel hands of death in 1984 at a very young age of thirty.

Poetry was her bread of life, Sara got inspiration to write poetry when she was deeply hurt with the innocent death of her new born son and the callous indifference of her second husband towards the tragedy such a critical moment of her motherhood.

Ill treated by her husband’s and the un-mindful society, she was driven to madness and was constantly in and out of the mental asylums. She continued to write poetry with rare verve. She tried to commit suicide by taking poison several times but was saved by timely medical help. Towards the end of her life, love developed between her and Syed Ahmad but it was too late.

For Sara words were power in her hands. Despite her untimely death, she has left behind a rich poetic treasure. Here in this book, sandwiched between brilliant prose pieces, her terse and earthy poetry is surprisingly close to the style of Sylvia Plath.

چیونٹی بھر آٹا

A poem by “Sara Shagufta” from The Book Aankhein

ہم کس دُکھ سے اپنے مکان فرخت کرتے ہیں
اور بُھوک کے لئے چیونٹی بھر آٹا خریدتے ہیں
ہمیں بند کمروں میں کیوں پرو دیا گیا ہے
ایک دن کی عمر والے تو ابھی دروازہ تاک رہے ہیں ۔۔۔
چال لہو کی بوند بوند مانگ رہی ہے
کسی کو چُرانا ہو تو سب سے پہلے اُس کے قدم چُراؤ۔۔۔۔
تم چیتھڑے پر بیٹھے زبان پہ پھول ہو
اور آواز کو رسی کور

انسان کا پیالہ سمندر کے پیالے سے مٹی نکالتا ہے
مٹی کے سانپ بناتا ہے اور بُھوک پالتا ہے
تنکے جب شعاعوں کی پیاس نہ بُجھا سکے تو آگ لگی
میں نے آگ کو دھویا اور دُھوپ کو سُکھایا
سورج جو دن کا سینہ جلا رہا تھا
آسمانی رنگ سے بھر دیا
اب آسمان کی جگہ کورا کاغذ بچھا دیا گیا
لوگ موسم سے دھوکا کھانے لگے
پھر ایک آدمی کو توڑ کر میں نے سُورج بنایا

لوگوں کی پوریں کنویں میں بھر دیں
اور آسمان کو دھاگہ کیا
کائنات کو نئی کروٹ نصیب ہوئی
لوگوں نے اینٹوں کے مکان بنانا چھوڑ دئے
آنکھوں کی زبان درازی رنگ لائی
اب ایک قدم پہ دن اور ایک قدم پہ رات ہوتی
حال جراتِ گذشتہ ہے
آ تیرے بالوں سے شعاعوں کے الزام اُٹھا لوں

تم اپنی صورت پہاڑ کی کھوہ میں اشارہ کر آئے
کُند ہواؤں کا اعتراف ہے
سفر ایڑی پہ کھڑا ہوا
سمندر اور مٹی نے رونا شروع کر دیا ہے
بیلچے اور بازو کو دو بازو تصور کرنا
سورج آسمان کے کونے کے ساتھ لٹکا ہوا تھا
اور اپنی شعاعیں اپنے جسم کے گرد لپیٹ رکھی تھیں
میں نے خالی کمرے میں معافی رکھی


0 comments:

Post a Comment