Request

Zyada sy Zyada like [g+1] kr ky post ko Google pr recomment kry Shukria

29 Mar 2014

famous poet and writer Ibn E Safi

ستارہ جو غروب ہوگیا

روشنی جو باقی رہے گی



 

ایک اک کر کے ستاروں کی طرح ٹوٹ گئے
ہائے کیا لوگ مرے حلقہ ء احباب میں تھے

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ماہ وسال کی گردشیں تھم گئی ہیں ۔ ماضی نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دی ہے اور یادوں کا کارواں آج سے ٹھیک33 سال پہلے اگسٹ ۴۷ء پر آ کر ٹھہر گیا ہے۔ الہ آباد یونیورسٹی کے بی اے سال اول کے درجہ میں ڈاکٹر حفیظ سید اردو پڑھا رہے تھے۔ میں اگلی نشستوں پر بیٹھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ اس پر بائیں ہاتھ کو سہارا دئیے ہوئے وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے۔ ان کے سر پر چاروں طرف حاشیہ کی طرح بالوں کے گچھے رہتے تھے۔ درمیانی حصہ بالکل صاف تھا۔ پیچھے گردن پر بال بے ترتیبی سے پڑے رہتے تھے جوش تقریر میں کبھی کبھی چھڑی اٹھا کر ہوا میں لہراتے تھے ۔اچانک مرے پاس بیٹھے ہوئے ایک طالب علم نے ٹھوکر دے کر کہا ”ذرا دیکھئے۔ ہمارے ”سر‘ کے پیچھے داڑھی ہے‘ جملہ اتنے زور سے کہا گیا تھا کہ میں تو چونکا ہی، کلاس میں بھی قہقہے گونجنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب نے جب باز پرس کی تو بڑی معصومیت سے اس طالب علم نے کہا۔ ”میں نے اپنے لئے یہ بات کہی تھی‘‘ ۔بعد میں معلوم ہوا کہ ان صاحب کا نام اسرار احمد ہے اور میرے محلے ہی میں رہتے ہیں ۔ اس روز کے بعد سے نسبتاً بے تکلفی بڑھی۔ بہت خوش گلو تھے اس لئے اکثر احباب کی محفل میں ان سے جذبی، مجاز اور اقبال کی غزلیں ترنم سے سنی جایا کرتی تھیں ۔ جنوری 48ء میں گاندھی جی کا حادثہ ہوا۔ میں اس زمانے میں الہ آباد کے ایک سہ روزہ اخبار ”نیا دور‘ میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ اس کا ”گاندھی نمبر‘ نکلنا تھا۔ صبح صبح دفتر جا رہا تھا۔ اسرار صاحب نے راستے میں مل کر ایک نظم دی اور بغیر پڑھے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اسے شائع نہیں کرنا ہے۔ اسے ردی کی ٹوکری میں ڈالنے سے پہلے یوں ہی سرسری طور پر نظر ڈالی تو ٹھٹھک کر رہ گیا۔ نظم کتابت کے لئے دے دی۔ لیکن شام کو ان سے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ”اسرار صاحب وہ نظم اشاعت کے لئے دے دی گئی۔‘ کہنے لگے ”شکریہ‘ ۔میں نے کہا ”سمجھ لیجئے جس کی نظم ہوگی وہ مجھے اور آپ کو قبر تک نہ چھوڑے گا‘‘ بولے ”کیا مطلب ۔ ؟ ‘ تیوریاں چڑھ گئیں ۔ میں نے کہا ”مطلب یہ کہ کیا وہ آٖپ ہی کی ہے؟‘ بولے ”پھر کس کی ہے؟‘ میں نے کہا ”چرائی ہے‘‘‘بولے ”ثابت کر دیجئے تو پانچ روپیے حاضر کروں گا۔ میں نے ایک شعر سناکر کہا ”یہ تو آپ کا نہیں ہے۔ یہ تو جوش یا فراق کا معلوم ہوتا ہے‘۔ بولے ”دکھا دیجئے۔ شاعری ترک کر دوں گا‘۔ وہ شعر یہ تھا

لویں اداس، چراغوں پہ سوگ طاری ہے
یہ رات آج کی انسانیت پہ بھاری ہے

مگر میں جوش یا فراق یا کسی اور کے دیوان میں یہ شعر کہاں سے دکھاتا۔ اب ان کی حیثیت ہمارے حلقے میں اک شاعر کی تھی، ایسا شاعر جو فراق، سلام مچھلی شہری اور وامق جونپوری کے سامنے بیٹھ کر نظمیں سناتا تھا اور لوگ حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔ اس زمانے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ سولہ برس کے تھے تو 42ء میں ایک نظم لکھی تھی ۔للہ نہ روکو جانے دو ۔مجھے یہ نظم زبانی یاد تھی مگر سمجھتا تھا کہ شمیم کربانی کی ہے۔ وہ نظم بھی اشاعت کے لئے دے دی گئی۔ مگر کسی نے بھی دعویٰ نہ کیا اور اسرار صاحب ہی اس نظم کے خالق قرار پائے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وہ ایسے موضوعات منتخب کرتے تھے جن پر کسی نے قلم نہیں اٹھایا تھا۔ ”مرگھٹ کا پیپل‘ ‘بانسری کی آواز‘ ، ”سنگتراش نے کہا ‘، ”خوف کا میخانہ‘ وغیرہ۔ اس زمانے کے دو تین شعر یاد آ گئے

دکھائی دی تھی جہاں پر گناہ کی منزل
وہیں ہوئی تھی دل ناصبور کی تکمیل

بس اتنا یاد ہے اسرار وقت مئے نوشی
کسی کی یاد بھی آئی تھی دل کو سمجھانے

جو کہہ سکے وہی ٹھیرا ہمارا فن اسرار
جو کہہ نہ پائے نہ جانے وہ چیز کیا ہوتی

شاعر کی حیثیت سے تیغ الہ آبادی (مصطفےٰ زیدی )اور راہی معصوم رضا دونوں ہی ان کے معترف تھے۔ اسی زمانے میں ماہنامہ ”نکہت‘ کا آغاز ہوا تھا۔ صبح سے شام تک بڑی دلچسپ صحبتیں رہتی تھیں ۔ جس میں حسین حیدر صاحب مرحوم کی حیثیت صدر نشین کی ہوا کرتی تھی۔ حالانکہ وہ ہم سب کے بزرگ تھے اور برادر محترم عباس حسینی صاحب کے والد۔ مگر ہم سب لوگوں کے ادبی مشاغل میں بڑے انہماک و دلچسپی سے شامل ہوتے تھے۔ اسرار صاحب نے ”ٹماٹر ازم‘ کے عنوان سے ایک طنزیہ سنایا۔ بہت پسند کیا گیا اور ”طغرل فرغان‘ نام تجویز ہوا۔ پھر نکہت میں وہ ”طغرل فرغان‘ اور ”عقرب بہارستانی‘ کے نام سے طنزیہ مضامین بھی لکھنے لگے۔ الہ آباد سے ایک روزنامہ ”نوائے ہند‘ نکلتا تھا۔ اس میں بھی ”طغرل فرغان‘ کے نام سے مزاحیہ کالم لکھا کرتے تھے۔ طنز و مزاح لکھنے والوں میں ابراہیم جلیس کے بہت مداح تھے اور شفیق الرحمان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ کہتے تھے ”لیکاک کی مسلّم فنٹیسی پر ہاتھ صاف کر دیتا ہے۔‘
اب شاعری پس پشت چلی گئی۔ اسرار احمد جو نارہ ضلع الہ آباد کے رہنے والے تھے اور اس لحاظ سے اپنے کو اسرار ناروی لکھا کرتے تھے، طغرل فرغان ہو گئے۔ ”نکہت‘ اور ”نوائے ہند‘ کو ملا کر سو کے لگ بھگ طنزیہ مضامین لکھے 51ء تک یہی کیفیت رہی۔ ایک روز انہوں نے ایک کہانی سنائی جسے سن کر بہت غصہ آیا اس لئے کہ وہ بہت فحش تھی۔ سناتے جاتے تھے اور غصہ بڑھتا جاتا تھا۔ لیکن کہانی کے اختتام نے منھ پیٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس لئے کہ کہانی کا مرکزی کردار جسے ہم سب عورت سمجھ رہے تھے وہ ایک پالتو بلی ثابت ہوئی۔ ذہن میں ایک خیال آیا اور سکسٹن بلیک کی طرز پر اردو میں ایک جاسوسی ماہنامے کا منصوبہ تیار ہونے لگا۔ اس منصوبہ بندی میں بھیا (عباس حسینی)، جمال صاحب (شکیل جمالی) راہی اور حسن حیدر صاحب بھی شامل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ راہی بہت اچھی جاسوسی کہانیاں لکھ سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ ہم لوگوں کے مقابلے میں وہ گارڈنر، پیٹر شینے، ایڈگرویلس، اگاتھا کر سٹی وغیرہ کو بہت زیادہ پڑھا کرتے تھے۔ بڑی برق رفتاری کے ساتھ پڑھتے تھے اور لکھتے بھی تھے۔ لیکن راہی کو نظر انداز کر کے میں نے وکٹر گن کا ایک ناول منتخب کیا کہ اسی کو بنیاد بناکر ایک کہانی لکھی جائے۔ یہ کام اسرار احمد کے سپرد ہوا۔ انہوں نے ایک ہفتہ میں ناول مکمل کرکے حوالے کردیا اور اسے پڑھنے کے بعد راہی نے بھی جاسوسی ناول لکھنے کا خیال ترک کردیا۔ جنوری 53ء میں ناول نگار کا نام ابن صفی منتخب ہوا کہ اسرار صاحب کے والد کا نام صفی اللہ تھا اور اسی مہینہ میں جاسوسی دنیا کے پہلے شمارہ کی حیثیت سے یہ ناول شائع ہوا۔ اس ناول کا نام تھا۔ ”دلیر مجرم‘- جس میں پہلی بار انسپکٹر فریدی اور سرجنٹ حمید روشناس کرائے گئے تھے۔ ایک ناول اور جو ”پہاڑوں کی ملکہ‘ کے نام سے شائع ہوا تھا، رائیڈر ہیگرڈ کے ناول ”کنگ سالون مانےئر‘ سے مستعار تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے تقریباً ڈھائی سو ناول لکھے۔ جو ان کے طبع زاو ناول تھے۔ ان ناولوں کی مقبولیت کے بارے میں کچھ لکھنا عبث ہے۔ صرف اتنا ہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ ان کی فروخت اردو اور ہندی کے کسی ناول نگار کے ناولوں کے مقابلے میں بلاخوف تردید سب سے زیادہ تھی اور اس کا راز ان کا منفرد طرز تحریر تھا۔ تجسس اور پراسرار واقعات سے بھرپور کہانیوں میں طنز کی شگفتگی اور مزاح کی چاشنی ایک سحرکارانہ کیفیت پیدا کردیتی تھی۔ کسی بھی زبان میں لکھے گئے جاسوسی ناول پڑھئیے، یہ انداز تحریر نہیں ملے گا اور پھر ان سب پر مستزاد ایک باوزن باوقار دلکش زبان، واقعات میں نصیحت کا کہیں شائبہ نہیں ۔ نہ جانے کتنے لوگوں نے ان کے ناولوں کے ذریعہ اردو سیکھی، اردو پڑھنے کا ذوق حاصل کیا۔ ہندی میں ان کے ناولوں کا ترجمہ شائع ہوتا تھا۔ ابھی تقریباً ستر پچھتر ناول ایسے ہیں جو ہندی میں شائع نہیں ہوئے۔وہ ہندی میں بھی اتنے ہی مقبول تھے جتنے اردو میں ،البتہ ہندی میں ان کے دو کرداروں کے صرف نام بدلے ہوئے تھے۔ یعنی فریدی کی جگہ ونود اور عمران کی جگہ راجیش۔ حمید اور قاسم اپنے اصلی ناموں کے ساتھ ہی ہندی میں بھی ملتے ہیں ۔ یوں تو طلسم ہو شربا کی طرح انہوں نے بے شمار کردار خلق کئے اور وہ سب اپنے محدود دائرے میں ذہن پر دیر پا اثرات چھوڑتے ہیں ۔ لیکن حمید ان کا ایسا شاہکار کردار ہے جو فسانہ آزاد کے خوجی اور طلسم ہوشربا کے عمر عیار کی طرح ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ درست نہیں کہ ادبی حلقوں نے انہیں نظرانداز کیا۔ اردو میں آزادی کے بعد لکھے جانے والے ناولوں کے دور پر بہت کم لکھا گیا ہے پھر بھی ڈاکٹر اعجاز حسین نے ”اردو ادب آزادی کے بعد‘ اور ڈاکٹر علی حیدر نے ”اردو ناول سمت و رفتار‘ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ پاکستان سے بیشتر نکلنے والے ناول نمبر یا ناولوں کے جائزے ان کے تذکرے سے خالی نہیں ہیں ۔ ان کی ادبی حیثیت اپنے منفرد اسلوب اور اپنی کردار نگاری کی بناء پر مسلم ہے ۔اگر انگریزی ادب کانن ڈائل اور اگا تھا کرسٹی کو ادب عالیہ کی کرسی عطا کرسکتا ہے تو اردو میں یہ جگہ صرف ابن صفی کے لئے مخصوص ہے۔ یوں تو ان کا ہر ناول بہت مشہور ہوا لیکن ان میں کچھ ایسے ہیں جو ہر جہت سے اس طرز کے بہت اچھے ناولوں کی صف میں عالمی ادب میں جگہ پانے کے مستحق ہیں ۔ ان میں دشمنوں کا شہر، لاشوں کا آبشار، خوفناک ہنگامہ، شعلوں کا تاچ، پتھر کی چیخ، سائے کی لاش وغیرہ بہت اہم اوراچھے موض۔وعاتی ناول ہیں ۔یہ درست ہے کہ ان کے یہاں واقعات کی رفتار پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ پورے منظر، پس منظر و پیش منظر کی تصویرکشی پر نہیں ۔ لیکن ان کا شاعرانہ مزاج ان کا طنزے بھرا ہوا نکیلا قلم کہیں کہیں عصری حسیت کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ ان پر بہت کچھ لکھنے کی گنجائش ہے اور اگر موقع ملا تو ادارہ جاسوسی دنیا کی طرف سے شائع ہونے والے ابن صفی نمبر میں ان پر تفصیل سے لکھنے کی کوشش کی جائے گی۔
اسرار صاحب نارے کے رہنے والے تھے اور کائستھ نژاد مسلم تھے اور بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ تم لوگ اتفاقی مسلمان ہو۔ ہم لوگ اختیاری مسلمان ہیں ۔ ہمارے آباد اجداد نے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا۔ ان کی والدہ دیوبندی عقائد رکھتی تھیں اور والد بریلوی مسلک کے ماننے والے تھے اور ان کے حلقہ احباب میں زیادہ تر اثنائے عشری۔ لیکن وہ بذات خود صرف مسلمان تھے۔ اور ان کی یہ خصوصیت ایسی تھی جس کی بناء پر ہر شخص بلالحاظ عقیدہ ان کی عزت کرنے پر مجبور تھا۔ محلے میں ان کی حیثیت ”امین‘ کی تھی ۔لوگ اپنی امانتیں رکھاتے تھے اور پھر لے جاتے تھے۔ ایک بار ایک صاحب نے ایک چھوٹا سا صندوقچہ رکھا۔ میرے سامنے ہی واپس لینے آئے۔ اس پر گرد جمی ہوئی تھی۔اسی عالم میں ان کا صندوقچہ انہیں واپس ملا۔ میں نے کہا ”گرد تو صاف کردی ہوتی‘ بولے ”غور ہی نہیں کیا۔ اور پھر ایک ذرہ بھی اگر کم ہو تو وہ امانت میں خیانت ہے‘۔
الہ آباد میں وہ مجیدیہ اسلامیہ کالج اور یادگار حسینی ہائر سکنڈری اسکول (جو اب کالج ہے) میں مدرس تھے اور بہت کامیاب۔ ان کے شاگردوں میں اجمل اجملی بہت مشہور ہوئے۔ الہ آباد میں پانچ سال ان کا ساتھ رہا۔ ان کے والد صاحب پاکستان ہی میں تقسیم سے قبل سے ملازم تھے۔ اسرار اگست 52ء میں اپنی والدہ اور اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ کراچی چلے گئے۔ الہ آباد ہی کے دوران قیام ہی ایک شادی ہوئی لیکن سال بھر بعد ہی ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔52 سے 60ء تک ہم لوگ ایک دوسرے سے دور رہے۔ صرف خط و کتابت ہی کا سہارا تھا۔ ہر ہفتہ انتہائی پابندی سے خط موصول ہوتا تھا۔ خط اتنے دلچسپ ہوا کرتے تھے کہ پڑھنے میں ناول کا مزہ آتا تھا۔ میں 60ء میں پاکستان گیا۔ میرے سامنے ہی وہ بیمار ہوئے اور یہ سلسلہ 63ء تک چلا۔ 61ء میں پھر میں پاکستان گیا اور ان سے ملا تھا۔ پچھلے ۱۹سال سے انہیں نہیں دیکھا۔ مگر ایک لمحہ کے لئے بھی یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ہم دونوں کے درمیان کوئی فاصلہ ہے۔ وہ وسیع حلقہ احباب کے قائل نہ تھے اور بے تکلفی کی حد تک بھیا ،جمال صاحب، راقم الحروف اور راہی کے علاوہ کوئی بھی ان کا ”یار‘ نہ تھا۔ عام لوگوں کی نظر میں وہ بہت خاموش آدمی تھے۔ بلاضرورت بات نہیں کرتے تھے اور دیکھنے والا بڑا معمولی تاثر لے کر اٹھتا تھا۔ ان کی شخصیت ملنے والے کو کشمکش میں مبتلا کردیتی تھی۔ سانولا رنگ، کشادہ پیشانی، روشن چمکتی ہوئی آنکھیں ،ابھرے ہوئے ہونٹ، بیضادی چہرہ، لیکن وہ اپنے کردار عمران کی طرح اپنے چہرے پر حماقت طاری کرلیا کرتے تھے اور جب ملنے والا چلا جایا کرتا تھا تو یہ سوچ کر مزہ لیا کرتے تھے کہ ان کے بارے میں کیا رائے قائم کی ہو گی۔ لیکن اپنے بے تکلف احباب کے لئے وہ زندگی کا ایک ناگزیر جزو بن کر رہ گئے تھے۔ 24گھنٹوں میں بلامبالغہ12گھنٹے ساتھ ہی گذرتے تھے میرے پاس نومبر79ء تک ان کے خطوط آتے رہے ۔ان کی علالت کی خبر سن کر بھیا نے اپنے چھوٹے بھائی جمال صاحب کو کراچی ان کی عیادت کے لئے بھیجا تھا۔ اس لئے کہ وہ خود ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق لمبا سفر نہیں کرسکتے تھے۔ اپریل میں جمال صاحب ان کے ہاں ایک مہینہ رہ کر واپس ہوئے اور اسرار صاحب کے ساتھ گذارے ہوئے خوشگوار دنوں کی کہانی مئی جون تک میں روزآنہ ان سے سنتا رہا، تصویریں دیکھتا رہا۔ اس خبر سے بڑا اطمینان ہوا کہ وہ اب روبہ صحت ہیں ۔ میرا پورا خاندان پاکستان میں ہے۔ ان لوگوں نے جولائی میں مجھے یہ اطلاع دی کہ اسرار بھائی اب پھر ناول لکھ رہے ہیں ۔ مگر انہیں اب بھی خون چڑھایا جاتا ہے۔ میں نے بہت سخت خط لکھا ۔اس لئے کہ اتنے عرصے سے خون کا چڑھایا جانا کوئی اچھی علامت نہ تھی اور اس پر سے کام کا جاری رہنا۔ میرے خط کا جواب نہیں آیا۔ پہلی اگسٹ کو ایک شاگرد نے بتایا کہ اخبار میں ابن صفی کے انتقال کی خبر چھپی ہے۔

الہ آباد اور کراچی سے تصدیق کرائی۔ دل چاہتا تھا کہ خبر غلط ہو۔ مگر دل دھڑکتا بھی تھا۔ چھ تاریخ کو دونوں جگہ سے خبر کی تصدیق ہوگئی۔25جولائی کو انتقال ہوا۔ 26 کو دفن کئے گئے۔ مرنے سے دو روز پہلے مجھے خط لکھا تھا۔ کیا لکھا ہوگا۔ خدا جانے۔ مجھے آج تک وہ خط نہیں ملا۔
60ء میں جب وہ پہلی بار بیمار پڑے تھے تو ڈاکٹروں کی دوا سے کوئی فائدہ نہ ہوا تھا۔ حکیم اقبال حسین کے علاج سے صحت یاب ہوئے۔ عارضہ جگر کی خرابی کا تھا۔ پھر 16 سال بعد بیمار ہوئے ،وہی دیرینہ بیماری اور کچھ برس پہلے ماں کی موت کا صدمہ، اپنی طرف سے لاپرواہی ، سارے زمانے کی فکر۔ حکیم اقبال حسین بھی نہیں تھے جو مرض کو سمجھ سکتے۔ اب معلوم ہوا کہ بلڈ کینسر تھا۔
کراچی پہونچ کر ایک شادی کی جن سے ۴ لڑکے اور ۴ لڑکیاں ہیں ۔ پھر عقدثانی بھی کیا لیکن ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ بڑی لڑکی کی شادی ہوچکی ہے۔ ایک لڑکا اٹلی میں زیرتعلیم تھا۔ یقینا اس وقت جب انہوں نے آخری بار اس دنیا پرنظر ڈالی ہوگی تو یہ سب رہے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی نگاہوں نے بھیا،ننھے، مجن کو ضرور تلاش کیا ہوگا اور آج ان تینوں کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے نمناک ہوچکی ہیں ۔

ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جب وہ قہقہہ لگاتا ہوا، سرگوشیاں کرتا ہو، نظمیں سناتا ہوا، کہانیاں لکھتا ہوا، نظروں کے سامنے بیٹھا ہوا دکھائی نہ دیتا ہو۔ میں 18اگست سے تادم تحریر بیمار رہا لیکن بیمار نہ بھی ہوتا تو شائد اس پر کچھ لکھ نہ پاتا۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ اس دنیا سے نہیں گیا، ہم سب کے قلم بھی ساتھ لیتا گیا، ہونٹوں پر بکھیرنے والی مسکراہٹ بھی لیتا گیا اور پلکوں پر لرزنے والا ستارہ دے گیا۔

پروفیسر مجاور حسین رضوی

ابن صفی کی کتاب ٌخوفناک عمارتٌ  یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیجئے۔

www.kitaabghar.com/…/khofnakimarat43.html

Ibne Safi was born on July 26, 1928, in the village of Nara in Allahabad District, U.P., India. His parents, Safiullah and Nuzaira Bibi, named him Asrar Ahmed at birth. It was much later that he came to be known as Ibne Safi.
Ibne Safi’s forefathers came from the village of Nara. Originally they were Hindus of Kaistth clan. Several generations back, their clan leader Raja Vasheshar Dayal Singh had embraced Islam and came to be known as Baba Abdun Nabi. His tomb still exists in what are now the ruins of the village Nara.

Ibne Safi’s parents both came from a family of landlords and learned men. His grandfather, Maulvi Abdul Fattah, was a schoolteacher in Ujjain, India before the partition of the Indian Subcontinent.
Ibne Safi’s father, Safiullah Saheb, initially moved from Nara to Allahabad; and then to what is now Pakistan. He used to work for “Syed A.M. Wazir Ali and Company,” a famous vending company contracting for the British Indian Army. During his service, he was stationed at places like Dehradun, Devlaali, Darjeeling, Quetta, etc.
Ibne Safi’s mother, Nuzaira Bibi, was a pious lady from a family of learned men. Her maternal relatives were known as “hakeemon ka khaandaan” (family of wise men). Her grand uncles included Hakim Ehsan Ali and Hakim Rehman Ali, both authors of books on traditional medicine. Tibb-e-Rehmaani and Tibb-e-Ehsaani – both written in Persian – were used on the curriculum of many traditional medical schools. Nuzaira Bibi was very watchful of her son Asrar, ensuring that he always had good company and good opportunities for education.
Ibne Safi had several siblings, including his brother Isar Ahmed and sister Ghufairah Khatoon, who died young. He only had one surviving sister Azra Rehana (Balaghat Khatoon), who was married to Lateef Ahmed Siddiqi and passed away 1n 2005..
Ibne Safi obtained his primary schooling in the village school at Nara. When he was only eight years old, he got an opportunity to read first volume of Talism-e-Hoshruba. Although he could not understand the language entirely, the story made a great impact on his creative mind. He then read all seven volumes several times.
Ibne Safi started writing at a young age. When he was in seventh grade, his first story appeared in the weekly Shahid, which was edited by Aadil Rasheed. Ibne Safi also started writing poetry in eighth grade. He was so impressed by the famous poet Jigar Murad Aabadi that his earlier poetry was on “khumriat” (poetry about the use and affects of alcohol).
Ibne Safi acquired his secondary school education in Allahabad, as his family had moved from Nara by this time. He completed Matriculation from D.A.V. School in Allahabad, India. For a short period during Matriculation, he got involved with baby communists and started writing poetry against social evils. Soon, however, he moved away from this group and its ideologies. During the independence movement and afterwards, he was also branded a progressive for his ideas, and warrants were issued in India for his arrest.
Ibne Safi completed Intermediate (High School Certificate) from Eving Christian College in Allahabad, India. This was a co-education college and his poetry flourished greatly in that environment. He would frequently participate in poetic sittings that were held at the college hostels. However, in his first year, he was reluctant to publicly read his poetry for the annual “mushaira.” In second year, he was elected President of The Literary Society. This required him to recite his poem Bansuri Ki Aawaz (Voice of the Flute). The Dean of the Urdu faculty, Maulana Anwar-ul-Haq, predicted that Ibne Safi would be a great poet in the future. The poem was also so deeply appreciated by his English professor Mr. Higgins, who had an avid interest in Urdu poetry, that he commented:
“Excluding Firaq’s Rubayyat and your poem, all the rest seemed to be merely echoes of poetry.”
In 1947, Ibne Safi enrolled in Allahabad University, where Dr. Syed Ejaz Hussain’s lectures further contributed to his literary and mental growth. However, this period was very short because independence riots had started and one incident had also occurred on university premises. Due to the critical nature of an already tense situation, he was asked to stay home.
After partition, when situation normalized in 1948, he did not re-enroll at the University because all his colleagues were now one year senior to him. Allahabad University did not have any room for private students. Only Agra University in UP allowed private students, with the condition that the candidate have two years teaching experience. Ibne Safi therefore obtained Bachelor of Arts degree from Agra University in Agra, India.
Ibne Safi formed many close friendships during this period. After moving from Nara, his family had taken residence in Hasan Manzil, Allahabad, quarter numbers 15 and 16. It was there that Ibne Safi met two brothers Abbas Hussaini and Jamal Rizvi (Shakeel Jamali) and their cousins Sarwar Jahaan (later known as Sarwar Hussain Abidi, an artist in Pakistan,) and Mujavir Hussain Rizvi (Ibne Saeed).
Ibne Safi’s other friends from this period include, Dr. Rahi Masoom Raza, Ishtiaq Haider, Yousuf Naqvi, Hameed Qaiser, Qamar Jalsai, Nazish Partab Garhi and Tegh Allahabadi (famous poet Mustafa Zaidi).
In 1948, Abbas Hussaini founded Nakhat Publications. Ibne Saeed was the Editor of the prose section, and Ibne Safi became Editor of poetry. At this time, Ibne Safi started experimenting with different literary genres on a regular basis, including short stories, humor, and satire. He used pseudonyms such as Sanki Soldier and Tughral Farghan. His first story for The Nakhat was Farar (The Escape), which was published in June 1948. Ibne Safi, however, was not satisfied with his work. The eight-year-old who had swallowed Talism-e-Hoshruba was persuading him to create something entirely different, especially in prose. Ibne Safi would soon follow the urgings of his inner child and be taken to Rider Haggard’s fictitious land of She, becoming even more frustrated.
In a literary sitting towards the end of 1951, a senior citizen commented that in Urdu only erotic stories are sold, and the rest are unmarketable. Ibne Safi disagreed with the gentleman, saying that nobody had tried to stop this flooding of porn literature. Another person added that this trend could not be stopped unless some replacement literature was created and put on the market. Ibne Safi thought long and hard about the predicament, about what literature would appeal to the market, and again the eight-year-old child appeared in front of him. He knew that even people in their eighties were glued to Talism-e-Hoshruba. Ibne Safi promised himself that he would try to create some replacement for Urdu porn literature.
With the advice of Ibne Safi, Abbas Hussaini made arrangements for publishing monthly detective novels. The name of the series was Jasoosi Duniya (The World of Espionage), and it was the first time Ibne Safi started writing with the infamous pen name of Ibne Safi. Containing his original characters, Inspector Faridi and Sergeant Hameed, the first novel Dilaer Mujrim (The Brave Criminal) was published in March 1952.
At this time (1949-1952), Ibne Safi was by profession a secondary school teacher at Islamia School Allahabad, and later at Yaadgaar-e-Hussaini School. He maintained the school jobs, and studied part time to finish his education.
Very few people know that Ibne Safi was also very fond of music and drawing. He had a good voice for singing, and used to draw sketches on his novel drafts.
After finishing his education, Ibne Safi migrated to Pakistan with his mother and sister in August 1952. They joined his father in Karachi, who had emigrated there in 1947. Ibne Safi’s first residence was in a locality called C-1 area, Lalukhet (now known as Liaqatabad). Ibne Safi then founded Asrar Publications and started publishing Jasoosi Duniya simultaneously from Pakistan and India. The political border between the two countries did not divide the relationship he had formed with his readers.
In 1953, Ibne Safi married Umme Salma Khatoon. She was born on April 12, 1938 to Muhammad Amin Ahsan and Riaz Fatima Begum. Her father was Deputy Superintendent of Police in Sultanpur, India. Salma had a family background of literary and religious personalities. Her grandfather, the poet Muhammad Ahsan Vehshi, was a disciple of Haji Imdadullah Muhajir Makki. Salma’s uncle, Maulana Najm Ahsan, was a vicegrant (Khalifa) of Hakimul Ummat Maulana Ashraf Al Thanvi
Quds Sirruhu. Salma’s brother, Makeen Ahsan Kaleem, was the Chief Editor of the daily Mashriq (Lahore, Pakistan) till his demise in 1976. Salma’s sister Safia Siddiqi is also a writer.
In 1955, Ibne Safi created a new character, Imran, and started publishing the Imran Series. The first novel of this series KHaufnaak Imarat (The Frightening Building) was published in October 1955 by A & H Publications, 130 Hasan Ali Afandi Road, Karachi Pakistan whereas the Indian edition was published in December 1955 by Monthly Nikhat, Allahabad.
In October 1957 Ibne Safi founded Asrar Publications, Karachi and published first Jasoosi Duniya novel THanDee Aag (The cold Fire) from Pakistan. The same novel was published simultaneously in India by Jasoosi Duniya, Allahabad.
In 1958, Ibne Safi moved to newly constructed house in Nazimabad No.2, which remained the family abode during the remainder of his life. Though he also moved offices to a new location in Firdous Colony, Karachi, he felt more at ease writing from home. With the addition of Imran Series to Jasoosi Duniya, his publishing raised to a record three to four novels monthly.
By June 1960, Ibne Safi had written the eighty-eighth novel of Jasoosi Duniya (Prince Vehshee) and the forty-first novel of Imran Series (Bay-Awaaz Sayyarah). During this period, he also experimented with the Jasoosi Duniya Magazine Edition. However, only four issues were ever published. The excessive thinking and writing eventually took a toll on his health, and the magazine edition was discontinued.
Ibne Safi suffered from schizophrenia during 1960 and 1963, not writing a single word in those three years. With the prayers of his family, friends, and fans, Ibne Safi finally recovered from the illness in 1963 under the treatment of Hakim Iqbal Hussain of Karachi.
The author made a great comeback on November 25, 1963 with the bestseller Imran Series novel Dairh Matwaalay, which inaugurated in India by the then Prime Minister Lal Bahadur Shastri. The demand for this novel was so high that within a week a second edition was published in India. This edition was inaugurated by the then Provincial Law Minister Ali Zaheer.
In 1968, Ibne Safi’s father, Safiullah Saheb, retired from his job and passed away the same year.
During the mid-seventies, Inter Services Intelligence of Pakistan informally utilized his services for lecturing new recruits on the methods of detection.
In 1975, a film producer, Muhammad Hussain Talpur (aka Maulana Hippie), experimented with a film Dhamaka based on the Imran Series novel Baibaakon Ki Talaash. Actor Javaid Sheikh (then Javaid Iqbal) was introduced for the first time as Zafarul Mulk, the main character. Maulana Hippie played Jameson, and the actress Shabnam played the role of Sabiha. Imran and X-2′s team was not shown in the movie. Ibne Safi himself recorded the voice of X-2.
During the elections of March 1977, PTV produced a serial Dr. Duago based on the same novel of the Imran Series. Actor Muhammad Qavi Khan played Imran but the play was never aired due to political censorship.
In January 1977 Mushtaq Ahmed Qureshi started publishing Ibne Safi Magazine which was later renamed to Nae Ufaq. Another magazine Naya Rukh was started after the death of Ibne Safi. Both magazines carried a novel of Jasoosi Duniya and Imran Series each, respectively. These magazines are still in publication today; however, Ibne Safi’s novels are not included anymore.
Ibne Safi’s mother Nuzaira Bibi passed away in the summer of 1979. Ibne Safi’s pain on her sad demise took the shape of heartfelt poem MaaN (Mother).
In September 1979, Ibne Safi suffered from abdominal pains. By December of that year, it was confirmed these were a result of cancer at the head of pancreas.
He was attended by the family physicians, Dr. Saeed Akhtar Zaidi and Dr. Qamaruddin Siddiqui. General Physician Dr. Rab and Cancer Specialist Dr. Syed Hasan Manzoor Zaidi also provided care and treatment in his last days.
Though his health deteriorated seriously and rapidly between December 1979 and July 1980, Ibne Safi did not quit writing.
On Saturday July 26, 1980 (Ramadhan 12, 1400 AH), at around Faj’r time, Ibne Safi passed away (Inna Lillahe Wa Inna Ilaihe Raje’oon). His incomplete Imran Series novel Aakhri Aadmi was by his bedside.
Ibne Safi left behind four sons and three daughters:
Dr.Isar Ahmed Safi – Doctor of Medicine an Ophthalmologist who passed away on 3rd July 2005 after suffering from a high grade fever. (Inna Lillah-e Wa Inna Ilaih-e Raje’oon)
Abrar Ahmad Safi – Mechanical Engineer with a marine engineering background. Lives in USA.
Dr. Ahmad Safi – Mechanical Engineer holding a PhD. Lives in Karachi, Pakistan.
Iftikhar Ahmed Safi – Electrical Engineer. Lives in Riyadh, Saudi Arabia.
Nuzhat Afroz, Sarwat Asrar and Mohsina Safi are the three daughters.
Ibne Safi’s wife Umme Salma Khatoon passed away on Thursday June 12, 2003.
Dhamaka was the only movie written by Ibne Safi. The film was produced by Muhammad Hussain Talpur (aka Maulana Hippie,) based on the Imran Series novel Baibaakon Ki Talaash. Actor Javaid Sheikh (then Javaid Iqbal) was introduced for the first time as Zafarul Mulk, the main character. Maulana Hippie the film producer played Jameson and actress Shabnam played the role of Sabiha. Imran and X-2′s team was not shown in the movie. The voice of X-2 was recorded by Ibne Safi himself. Actor Rahman played the role of a Villain for the first time. Actress Saishta Qaiser appeared as a guest artist in the choreography sequence during the famous song by Habib Wali Mohammad Rah-e-talab maen kaun kisee ka…. based on Ibne Safi’s ghazal which was picturised on actor Rahman.
The movie was released in December, 1974.
Only the following three novels of Jassosi Duniya included pictures of various scenes in their first editions. Khaufnaak Hangaama (The Terrifying Agitation)
Shoaloan Kaa Naach (The Dance of the Flames)
Zameen Kay Baadal (The Clouds of the Earth)

0 comments:

Post a Comment