Request

Zyada sy Zyada like [g+1] kr ky post ko Google pr recomment kry Shukria

29 Mar 2014

famous writer Bano Qudsia



Bano Qudsia

سوال: آپ ہمیں یہ بتائیں کہ کیا بانو قدسیہ شروع ہی سے بانو قدسیہ ہی تھیں؟

بانو قدسیہ: جی نہیں ہرگز نہیں۔ میں جب کالج میں پڑھتی تھی، اشفاق صاحب کے ساتھ، تو مجھ سے روز کہا کرتے تھے کہ ادیب بننا ہے تو نام میں ادبیت ضرور ہونی چاہیے، میں نے اپنے نام کے ساتھ سے ’خان‘ ہٹا دیا ہے تم اپنے نام کے ساتھ سے، تب میں قدسیہ بانو چٹھہ تھی، تو انہوں نے کہا کہ میں بھی اپنا خان ہٹاتا ہوں تم بھی ذات ہٹاؤ، میں تمہارا نام بانو قدسیہ کرتا ہوں۔ تو یہ نام مجھے ان کا دیا ہوا ہے اشفاق صاحب کا۔

سوال: تو بانو قدسیہ کب پیدا ہوئی، کہاں پیدا ہوئی؟

بانو قدسیہ: جی میں، مشرقی پنجاب میں، فیروزپور میں اٹھائیس نومبر میں انیس سو اٹھائیس کو پیدا ہوئی۔ پھر پڑھائیوں کے سلسلے میں دائیں بائیں پھرتے رہے، اور یہاں پر آئی تو سنہ سینتالیس تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں، جب پاکستان بنا ہے اسی سال میں نے بی اے کیا۔ آپ یقین کریں جو ایکسپئرینسز (تجربات) ہمیں پاکستان کے قیام کے وقت ہوئے ہیں، وہ آپ لوگوں کو سمجھ میں بھی نہیں آ سکتے۔ آپ لوگ چھوٹے ہیں۔ آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان کیا چیز تھی اور کیا بنا ہے۔ جب کالج میں ہم امتحان دے رہے تھے تو یک دم آگ لگ گئی۔ پھر کنیرڈ کالج سے اٹھا کر لڑکیوں کو ڈالا گیا بس میں اور ایف سی کالج لے کر گئے اور ہم نے وہاں امتحان کا پرچہ دیا۔ رستے میں بھی اندیشہ تھا کہ لڑکیاں اغواء نہ کر لی جائیں۔ اتنا اندیشہ تھا تو ان حالات میں ہم نے امتحان کیا۔ پھر پاکستان بنا۔ پھر آپ جانتے نہیں جیسے اشفاق صاحب ہمیشہ کہتے رہتے تھے، کہتے چلے گئے ہیں: پاکستان جو ہے یاد رکھیے، یاد رکھیے، پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو عزتِ نفس حاصل ہو۔ پاکستان کا سلوگن (نعرہ) روٹی کپڑا اور مکان نہیں ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان جو ہے وہ تو اوپر والا دیتا ہے۔ آپ یقین کریں روٹی کپڑا اور مکان انسان دے نہیں سکتا کسی کو۔ آپ دعویٰ کر لیجئیے، دے کر دکھائیے کسی کو، اگر آپ کو اپنے بچوں کو بھی روٹی کپڑا اور مکان دینا پڑے تو آپ دے نہیں سکیں گے۔ مجبوریاں درپیش ہو جائیں گی، کوئی وجہ ہو جائے گی، نوکری چھوٹ جائے گی، کچھ ہو جائے گا۔ لیکن عزت نفس، شیریں کلامی، کسی کے ساتھ اچھا سخن کرنا، یہی ہم کسی کو دے سکتے ہیں۔

سوال: بانو قدسیہ کا ابتدائی بچپن، شروع کا کہاں گزرا، کیسا گزرا؟

بانو قدسیہ: جب میں ساڑھے تین برس کی تھی تو میرے والد فوت ہو گئے تھے۔ تو میری والدہ نے مجھے سنگل ہینڈڈلی (اکیلے) پالا۔ وہ اس وقت جالندھر میں ہیڈ مسٹرس تھیں۔ جب میں نے پڑھنا شروع کیا۔ اس سے پہلے کی تو یادداشتیں بھی موجود نہیں ہیں۔ لیکن جب میں نے تختی لکھنا سیکھی تو ہم جالندھر میں رہتے تھے۔ عمران خان کی خالہ تھیں جنہوں نے مجھے تختی لکھنا سکھایا۔ عمران خان کو تو آپ جانتے ہی ہیں (پاکستان کے مشہور کرکٹر اور اب سیاست دان) تو ان کی خالہ نے مجھے تختی لکھنا سکھایا، پڑھنا لکھنا سکھایا اور میرے نانا نے میری تربیت کی اور مجھے لکھنا پڑھنا سکھایا۔ اور ان کی ایک ہی ڈیمانڈ (تقاضا) ہوتی تھی: بیٹی شکستہ لکھو۔ مرد کی طرح لکھو عورتوں کی طرح گول گول نہ لکھو۔ تو آپ دیکھیں کے میری اور اشفاق صاحب کی لکھائی میں اتنا کم فرق ہے کہ اگر میں اشفاق صاحب کا سکرپٹ دے دوں یا اپنا سکرپٹ دے دوں تو کوئی پہچان نہیں سکے گا۔

سوال: کبھی اتنا کچھ لکھنے کے بعد یا لکھنے کے دوران یہ خیال آیا کہ آپ لکھتی کیوں ہیں ہیں یا اس کی ضرورت کی ۔ ۔ ۔ لکھنے کی تحریک کیا ہے؟

بانو قدسیہ: میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ کیا کسی پھول کو معلوم ہوا ہے کہ وہ کھلتا کیوں ہے؟ کسی پھل کو پتہ چلا ہے کہ وہ کیوں پکتا ہے؟ اور کیوں اس میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے؟ تخلیقی کاموں کا جس بندے کو علم ہو گیا کہ وہ کیوں لکھتا ہے تو میرے خیال میں وہ مشقت سے لکھتا ہے اور اس کا نام ہسٹری میں آ نہیں سکتا۔

کہانی وارد ہو جاتی ہے۔ اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیسے آتی ہے۔ وہ چلتے چلتے وارد ہو جاتی ہے۔

سوال: اور پھر آپ اس پر۔ ۔ ۔

بانو قدسیہ: وہ خود ہی پکڑی جاتی ہے۔ خود ہی ذہن اسے پکڑ لیتا ہے اور خود ہی اس پر کام کرنے لگ جاتا ہے۔ جس طرح غزل نازل ہوتی ہے، آمد سے بھی زیادہ، میں کہتی ہوں نازل ہوتی ہے، تو پتہ تو نہیں ہوتا کہ کیسے شعر اتریں گے اور کیسے بن جائیں گے۔ بن جاتی ہے تو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو پوری غزل ہی ہو گئی۔

سوال: اور ناول، تو کیا ناول میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے؟

بانو قدسیہ: دیکھیے میں آپ کو دوسرے ناولوں کی بات تو بعد میں بتاؤں گی، میں ’راجہ گدھ‘ کے متعلق آپ کو بتا سکتی ہوں۔ آج وہ سترہ اٹھارہ سال سے سی ایس ایس کے امتحان میں لگا ہوا ہے۔ ڈاکٹر اجمل آپ کو یاد ہوگا، نفسیات دان تھے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل بھی رہے ہیں۔ انہوں نے اسے مقابلہ کے اس امتحان میں لگایا تھا۔ میں یہاں پر بیٹھی تھی اور میرا کوئی ارداہ نہیں تھا کہ میں کوئی ایسا ناول لکھوں گی۔ ’راجہ گدھ‘ کی طرح کا، ان دنوں ہمارے گھر میں ایک امریکن لڑکا ٹھہرا ہوا تھا۔ وہ بہت کوشش کرتا تھا کہ امریکن تہذیب، امریکن زندگی، امریکن اندازِ زیست سب کے بارے میں یہ ثابت کرے کہ وہ ہم سے بہتر ہے۔ مسلمانوں سے بہتر ہے۔ تو ایک روز وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا: اچھا مجھے دو لفظوں میں، ایک جملے میں بتائیے، آپ صرف چھوٹی سی بات مجھ سے کیجیے کے اسلام کا ایسنس (جوہر) کیا ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ آپ یہ بتائیے کہ عیسائیت کا ایسنس کیا ہے؟ اس نے کہا: عیسائیت کا ایسنسن ہے Love – “Love thy neighbour as thyself” یہ ایسنسن ہے عیسائیت کا۔ میں نے کہا اسلام کا جو ایسنس ہے وہ اخوت ہے، برابری ہے، بھائی چارہ ہے brotherhood ہے۔ کہنے لگا چھوڑیے یہ کس مذہب نے نہیں بتایا کہ برابری ہونی چاہیے۔ یہ تو کوئی ایسنس نہیں ہے یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا۔ یقین کیجیے، یہاں پر پہلے ایک بہت بڑا درخت ہوتا تھا سندری کا درخت۔ سندری کا درخت ہوتا ہے جس سے سارنگی بنتی ہے۔ اس کے بڑے بڑے پتے تھے اور وہ یہاں لان کے عین وسط میں لگا ہوا تھا۔ وہ ایک دم سفید ہو گیا اور اس پر مجھے یوں لگا جیسے لکھا ہوا آیا ہو: اسلام کا ایسنس حرام و حلال ہے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اسے میں نے کیوں کہا۔ کیونکہ اس ہر ایکشن (عمل) سے دو چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ جتنے کمانڈمنٹس ہیں یا تو وہ حرام ہیں یا حلال ہیں۔حلال سے آپ کی فلاح پیدا ہوتی ہے اور حرام سے آپ کے بیچ میں تشنج پیدا ہوتا ہے۔ آپ میں ڈپریشن پیدا ہوتا ہے آپ میں بہت کچھ پیدا ہوتا ہے۔ میں نے اس امریکی لڑکے کو بلایا اور اسے کہا: یاد رکھنا اسلام حرام و حلال کی تمیز دیتا ہے اور یہی اس کا ایسنس ہے۔ اس کےبعد میں نے یہ کتاب لکھی اور میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ کس طرح اللہ نے میری رہنمائی کی اور میری مدد فرمائی اور مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ کتاب میں نے نہیں لکھی مجھ سے کسی نے لکھوائی ہے۔ اس کے بعد آپ کو پتہ کہ میری بہت ساری کتابیں ہیں۔ پچیس کے قریب کتابیں میری ہو چکی ہیں۔ اور جتنا بھی اس پر کام ہوا ہے میں آپ کو بتا ہی نہیں سکتی کہ کس طرح ہوا ہے۔

سوال: کوئی یاد ہے، اس کی کہانی، اس کی تحریک؟

بانو قدسیہ: دیکھیے، اس کی کہانی عجیب و غریب ہے کہ ایک آدمی بچہ چرا کر لے جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کا ضمیر کیسے پلٹتا ہے اور کیسے وہ بچہ واپس لا کر دیتا ہے۔ جب وہ بچہ اٹھاتا ہے تو کہتا ہے: something is better than nothing)) کہ یہاں سے مجھے پیسہ تو نہیں ملا بچہ مل گیا ہے، اسے یرغمال کے طور پر استعمال کروں گا لیکن بعد میں اس کا ضمیر اس کو اتنی ملامت کرتا ہے کہ وہ بچہ واپس کر دیتا ہے۔ آج بھی میں اس تھیم پر اچھا ڈرامہ نہیں لکھ سکتی۔ پتہ نہیں کب دماغ کیسے چلا۔ اسے لڑکیوں نے بہت اچھا کیا اور ہمیں انعام ملا۔

سوال: تو یہ پہلی کہانی تھی جسے آپ نے ڈراما بنایا؟

بانو قدسیہ: نہیں کہانی نہیں تھی، سیدھا ڈرامہ ہی بنایا۔

سوال: پھر کبھی کہانی کی شکل میں نہیں لکھا آپ نے اسے یا اسے محفوظ رکھا؟

بانو قدسیہ: بس میں نے، نہیں آٹھویں کا سکرپٹ کون محفوظ رکھتا ہے۔ پھر میں کرتی گئی، کرتی گئی اور بی اے کے بعد ایم اے میں جب آئی ہوں تو میں ایک ناول لکھ رہی تھی۔ کہانیاں لکھ رہی تھی لیکن کوئی سورس نہیں تھا کہ میں انہیں کہاں بھجواؤں کیا کروں، کس طرح کروں؟ ایم اے میں جب پہلے سال میں ہم داخل ہوئے تو، جیسے کہ میں آپ کو پہلے بتایا ہے کہ ہمارے پروفیسر سرداری لعل صاحب نے کہا تھا کہ تم ایم اے میتھیمیٹکس میں کر لو، تو آدھے راستے میں، میں یہ ارادہ کر کے گئی تھی کہ میں اپنے پروفیسر کی بات مانوں گی لیکن جب میں وہاں پہنچی تو یک دم ارادہ بدل دیا، مجھے پتہ چلا کہ پہلا سیشن اردو کا شروع ہو گیا ہے۔ مجھے باہر لوگوں سے پتہ چلا کہ یہاں ایم اردو کی بھی تیاری ہو گئی ہے۔ میں نے کہا کہ میرے لکھنے میں یہ چیز کام آئے گی۔ میں کچھ اردو سیکھ لوں گی تو پھر میں نے وہاں پرنسپل پروفیسر سراج، جو انگریزی کے پروفیسر تھے، ان سے کہا کہ جی میں اردو میں ایم اے کرنا چاہتی ہوں۔ غالباً اڑتالیس کی بات ہے۔ تو انہوں نے مجھ سے کہا: بیٹا تمہاری کوئی اردو کی بیک گراؤنڈ ہے پڑھنے لکھنے کی؟ تو میں ان سے کہا جی میں صرف ایک ہی کتاب پڑھی ہے، پنڈت رتن ناتھ سرشار کی، اور وہ ہے ’فسانۂ آزاد‘۔ تو انہوں نے کہا کہ تمہیں اتنی ہی اردو آتی ہے؟ تو میں نے کہا کہ جی میں اسی پر ہی کام کروں گی۔ میں تھیسس بھی اسی پر لکھوں گی اور کام بھی اسی پر کروں گی۔ آپ مجھے اجازت دے دیجیے۔ پھر میں فیل ہو گئی تو آپ مجھے ففتھ ائر میں نکال دیجیے گا۔ تو انہوں نے کہا چلو، “you are seem to be quite madeup your mind” تو تمہیں داخلہ دیتے ہیں۔ تو ہم پانچ چھ سٹوڈنٹ تھے۔ تو آپ یقین کریں کہ جب میں نے ففتھ ائر پاس کیا، تو اشفاق صاحب جو ایک کتاب کے مصنف تھے اس وقت بھی، وہ سیکنڈ آئے اور میں فرسٹ آ گئی۔ جس سے اشفاق صاحب کو پرخاش چڑھی۔ انہوں نے کہا یہ ہوتی کون ہے، میں صاحبِ کتاب ہوں اور یہ فرسٹ آ گئی اور میں سیکنڈ آ گیا تو پھر انہوں نے مجھ میں دلچسپی لینا شروع کی۔ پھر ان کو پتہ چلا کہ یہ بھی لکھتی ہے۔ تو انہوں نے میری مدد کی اور پھر انہوں نے میرا پہلا افسانہ ’ادبِ لطیف‘ میں چھاپا جس کا نام تھا ’واماندگیِ شوق‘۔

سوال: عورتوں کی لکھائی گول گول اور مردوں کی لکھائی شکستہ؟

بانو قدسیہ: شکستہ۔ مرد کو ہمیشہ ٹرینگ (تربیت) ہوتی ہے کہ شکستہ لکھے۔ وہ شروع ہی سے شکستہ لکھتے ہیں اور عورتیں بنا بنا کر نون بھی بناتی ہیں، میم بھی بناتی ہیں، الف بھی بناتی ہیں اس سے لکھائی گول گول ہو جاتی ہے۔ جو شکستہ لکھنے والا ہے وہ تیز تیز لکھتا ہے اور بہت لکھتا ہے۔

سوال: بچپن؟

بانو قدسیہ: جی، بچپن کیا گزرنا ہے، والد فوت ہو چکے تھے۔ تو ایک طرح کی پژمردگی ان گھروں میں ضرور ہوتی ہے جن میں والد نہ ہوں۔ آپ کو میں بتاتی ہوں خاص طور پر لڑکیوں میں یہ کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا۔ میرا جو اشفاق صاحب سے شغف ہے یا میں جو کہتی ہیں کہ میں ان کی مریدی میں ہوں، ان کی محبت میں مبتلا ہوں۔ تو یہ وجہ ہے کہ اشفاق صاحب نے میرے والد کی جگہ لی۔ انہوں نے میری ویسے ہی پرورش کی جیسے کوئی والد کر سکتا تھا۔ اس کے بعد میری والدہ دھرم شالے چلی گئیں۔ تو وہاں میرا بچپن گزرا۔ دھرم سالا پہاڑ ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کانگڑا ویلی (وادی) میں۔ وہاں ہم بہت سال رہے۔ اس کے بعد میں اسلامیہ کالج (لاہور) آ گئی کیونکہ میں نے ایف اے کرنا تھا۔ وہاں سے ایف اے کیا اس کے بعد بی اے کنیرڈ کالج سے کیا اور ایم اے میں نے گورنمنٹ کالج سے کیا۔

سوال: اشفاق صاحب سے کہاں ملاقات ہوئی؟

بانو قدسیہ: گورنمنٹ کالج میں ملاقات ہوئی۔ ففٹی (انیس سو پچاس) میں ہم دونوں نے ایم اے کیا ہے، اس سے دو سال پہلے۔ فورٹی ایٹ میں، میں گئی ہوں۔ اب تاریخیں بھی یاد نہیں رہتی ہیں کوئی گھپلا ہو جائے تو معاف کر دیجیے گا۔ لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سنہ پچاس میں، میں نے ایم اے کیا۔ میں بہت ینگ (نوجوان) تھی اس وقت، میرے خیال میں اٹھارہ انیس برس کی، میں ینگسٹ (سب سے کم عمر) سٹوڈنٹ تھی۔ تو ہمارے پروفیسر تھے، میرے خیال میں پروفیسر سراج الدین ان دنوں پرنسپل تھے۔ تو مجھے اردو کی کوئی عقل نہیں تھی۔ وہی گول گول لکھنے والا قصہ تھا۔ پڑھنا بھی مجھے نہیں آتا تھا کیونکہ میں نے کانونٹ سے تعلیم حاصل کی تھی تو کانونٹ ہی، اور پھر کنیرڈ کالج، تو آپ کو پتہ ہے کہ کنیرڈ کالج کیا اردو سکھائے گا۔ وہاں ہمارے پروفیسر تھے، پروفیسر سرداری لعل مجھ سے کہا کرتے تھے: بیٹی تم میتھیمیٹکس میں ماسٹر کر لو تمہارا دماغ اچھا ہے، تم میتھیمیٹکس میں اچھی رہو گی۔ وہ بڑی لگن سے پڑھاتے تھے۔ میں نے ایک سبجیکٹ بی اے میں میتھیمیٹکس لے رکھا تھا اور ایک اکنامکس لے رکھی تھی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ مجھے اردو پڑھنے لکھنے کا شوق بہت تھا۔ کہانیاں لکھنے کا۔ کہانیاں میں تب بھی لکھتی تھی۔ پانچویں جماعت سے میں لکھتی آ رہی ہوں۔ بلکہ میں آٹھویں جماعت میں تھی تو انٹر ڈریمٹک سوسائٹی کا سارے پنجاب کا ڈرامہ ہوا۔ کتنے ہوں گے تب سکول؟ نالائق سے تھے لیکن وہ انٹر سکول ڈرامے تھے۔ تو میں آٹھویں میں تھی جب میں نے اپنے سکول کے لیے ڈرامہ لکھا تھا اور وہ فرسٹ آیا تھا۔

سوال: یہ کون سا سکول تھا؟

بانو قدسیہ: یہ دھرم سالے میں گورنمنٹ کا سکول تھا۔

سوال: ٹھیک ہے، بنیادی خیال تو آپ کو آ گیا لیکن پھر اس کا تانا بانا ۔ ۔ ۔

بانو قدسیہ: جی میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ کس طرح میری رہنمائی ہوئی ہے، جس طرح شاعر نہیں بتا سکتا کہ غزل کس طرح لکھی گئی، اس طرح میں آپ کو نہیں بتا سکتی۔

سوال: تو کیا ایک ہی سکرپٹ میں کہانی مکمل کرتی ہیں؟

بانو قدسیہ: جی نہیں راجہ گدھ تو بہت برسوں میں لکھا گیا۔

سوال: میرا مطلب ہے کہ جب آپ ایک بار لکھ لیتے ہیں تو پھر اسے دیکھتے ہیں، اسے لکھتے ہیں؟

بانو قدسیہ: جی کئی بار ایسے بھی ہوا ہے۔ کئی بار دوبارہ بھی لکھنا پڑتا ہے۔ میں تو بہت غلطیاں کرنے والی عورت ہوں۔ کئی بار میں چیز کو لکھ کر دوبارہ دہراتی بھی ضرور ہوں۔ لیکن اشفاق صاحب کا لکھا ہوا، وہ ایک ہی بار لکھا کرتے تھے۔ پھر وہی مجھے راغب کر کے ٹیلی ویژن پر لے گئے۔ پہلے ریڈیو پر لے گئے اور پھر ٹیلی ویژن پر۔

سوال: لیکن ٹیلی ویژن والے تو خاص تقاضے کرتے ہیں؟

بانو قدسیہ: نہیں جی میرا ان کے ساتھ، اشفاق صاحب کا اور میرا، اب میرے بیٹے انیق احمد کا جو لکھتے ہیں اب، وہ آج کل یہاں نہیں ہیں۔ امریکہ میں ہیں۔ لیکن وہ یہاں دو ایک سیریز لکھ کر جا چکے ہیں۔ ہمارا ایک ہی ہوتا ہے کہ اگر تبدیلی چاہتے ہیں تو کسی تبدیلی والے لکھنے والے سے لکھوا لیجیے۔ اشفاق صاحب نے مجھے شروع ہی سے کہا تھا کسی سکرپٹ کو کسی کے لیے تبدیل نہیں کرنا۔ اگر آپ کی کنوکشن ہے تو آپ اسے لکھیں اور اگر آپ کی کنوکشن نہیں تو آپ اسے نہ لکھیں۔ تو کنوکشن کی چیزیں بدلی نہیں جا سکتیں۔ )

سوال: آج کل آپ اپنا صبح سے شام کا دن کس طرح گزارتی ہیں؟

بانو قدسیہ: یہ آپ نے اچھا سوال نہیں کیا، میں آپ کو بتاتی ہوں کے میں اس رابطے کو بھولنے کی کوشش میں لگی رہتی ہوں، جو میرا اشفاق صاحب سے تھا۔ اس سہارے کو میں تلاش نہیں کرنا چاہتی۔ بچن میں میرا باپ مجھ سے چھنا، اب دوبارہ چھن گیا ہے۔ اب میں اس رنج سے اور اس غم سے عہدہ براہ ہونے کی کوشش میں لگی رہتی ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ عام چیزوں میں عام باتوں میں دلچسپی لوں۔ شاید مجھے بھول جائے کہ میں کہاں تھی اور کہاں آ گئی۔

سوال: باہر آنا جانا، گھر کے کام کاج؟

بانو قدسیہ: گھر کے کام کاج تو وہ بلی ہے جو گلے کو پکڑ لیتی ہے۔ اسے تو آپ چھوڑ ہی دیجیے۔ بس کوشش ہوتی ہے کہ اشفاق صاحب کی روایت پر چلنے کی۔

(میں اب آپ کو زیادہ وقت نہیں دے سکوں گی، اذان کا وقت ہو رہا ہے، میں معافی چاہتی ہوں)

بانوقدسیہ کے ناول، کہانیوں کے مجموعے اور دیگر کتابیں

٭ راجہ گدھ ٭ شہر بےمثال ٭ توجہ کا طالب
٭ چہار چمن ٭ سدھراں ٭ آسے پاسے
٭ دوسرا قدم ٭ آدھی بات ٭ دست بستہ
٭ حوا کے نام ٭ سورج مکھی ٭ پیا نام کا دیا
٭ آتش زیر پا ٭ امر بیل ٭ بازگشت
٭ مردابریشم ٭ سامان وجود ٭ ایک دن
٭ پروا ٭ موم کی گلیاں ٭ لگن اپنی اپنی
٭ تماثیل ٭ فٹ پاتھ کی گھاس ٭ دوسرا دروازہ
٭ ناقابل ذکر ٭ کچھ اور نہیں ٭ حاصل گھاٹ

بشکریہ ”اردو لکھاری”۔

آنکھيں سرخ ساٹن کي طرح چمک رہي تھيں اور سانسوں ميں دمے کے اکھڑے پن کي سي کيفيت تھي۔ پاس ہي پپو بيٹھا کھانس رہا تھا۔ کالي کھانسي نامراد کا ہلا جب بھي ہوتا بيچارے کا منہ کھانس کھانس کر بينگن سا ہو جاتا ۔ منہ سے رال بہنے لگتا اور ہاتھ پاؤں اينٹھ سے جاتے۔ امي سامنے چپ چاپ کھڑکي ميں بيٹھي ان دنوں کو ياد کر رہي تھيں جب وہ ايک ڈي سي کي بيوي تھيں اور ضلع کے تمام افسروں کي بيوياں ان کي خوشامد کيا کرتي تھيں۔ وہ بڑي بڑي تقريبوں ميں مہمان خصوصي ہوا کرتيں، اور لوگ ان سے درخت لگواتے ربن کٹواتے ۔۔انعامات تقسيم کرواتے۔
پروفيسر صاحب ہر تيسرے مندھم سي آواز ميں پوچھتے ۔ ليکن آخر بات کيا ہے بي بي ۔ کيا ہوا ہے۔ وہ پروفيسر صاحب کو کيا بتاتي کہ دوسروں کے اصول اپنانے سے اپنے اصول بدل نہیں جاتے صرف ان پر غلاف بدل جاتا ہے۔ ستار کا غلاف ، مشين کا غلاف ، تکيے کا غلاف۔۔درخت کو ہميشہ جڑوں کي ضرورت ہوتي ہے۔ اگر اسے کرسمس ٹري کي طرح يونہي داب داب کر مٹي میں کھڑا کر ديں گے تو کتنے دن کھڑا رہے گا۔ بالاخر تو گرے ہي گا۔ وہ اپنے پروفيسر مياں کو کيا بتاتي کہ اس گھر سے رسہ تڑوا کر جب وہ بانو بازار پہنچي تھي اور جس وقت وہ ربڑ کي ہوائي چپلوں کا بھاؤ چار آنے کم کروا رہي تھي تو کيا ہوا تھا؟۔

اس کے بوائي پھٹے پاؤں ٹوٹي چپلي میں تھے۔ ہاتھوں کے ناخنوں ميں برتن مانجھ مانجھ کر کيچ جمي ہوئي تھي۔ سانس میں پياز کے باسي لچھوں کي بو تھي۔ قميض کے بٹن ٹوٹے ہوئےا ور دوپٹے کي ليس ادھڑي ہوئي تھي۔ اس ماندے حال جب وہ بانو بازار کے ناکے پر کھڑي تھي تو کيا ہوا تھا؟۔ يون تو دن چڑھتے ہي روز کچھ نہ کچھ ہوتا ہي رہتا تھا پر آج کا دن بھي خوب رہا۔ ادھر پھچلي بات بھولتي تھي ادھر نيا تھپڑ لگتا تھا۔ ادھر تھپڑ کي ٹيس کم ہوتي تھي۔ ادھر کوئي چٹکي کاٹ ليتا تھا۔ جو کچھ بانو بازار ميں ہوا وہ تو فقط فل اسٹاپ کے طو رپر تھا۔
صبح سويرے ہي سنتو جمعدارني نے بر آمدے میں گھستے ہي کام کرنے سے انکار کر ديا۔ رانڈ سے اتنا ہي تو کہا تھا کہ نالياں صاف نہیں ہوتيں ۔ ذرا دھيان سے کام کيا کر ۔ بس جھاڑو وہيں پٹخ کر بولي ۔ ميرا حساب کر ديں جي۔۔ کتني خدمتيں کي تھيں بد بخت کي۔ صبح سويرے تام چيني کے مگ میں ايک رس کے ساتھ چائے۔ رات کے جھوتے چاول اور باسي سالن روز کا بندھا ہوا تھا۔ چھ مہينے کي نوکري میں تين نائلون جالي کے دوپٹے ۔ امي کے پرانے سليپر اور پروفيسر صاحب کي قميض لے گئي تھي۔ کسي کو جرات نہ تھي کہ اسے جمعدارني کہہ کر بلا ليتا۔ سب کا سنتو سنتو کہتے منہ سوکھتا تھا۔ پر وہ تو طوطے کي سگي پھوپھي تھي۔ ايسي سفيد چشم واقع ہوئي کہ فورا حساب کر، جھاڑو بغل می داب ، سر پر سلپفحي دھر۔ يہ جا وہ جا۔ بي بي کا خيال تھا کہ تھوڑي دير میں آکر پاؤں پکڑے گي۔ معافي مانگے کي اور ساري عمر کي غلامي کاعہد کرے گي۔ بھلا ايسا گھر اسے کہاں ملے گا۔ پر وہ تو ايسي دفان ہوئي کہ دوپہر کا کھانا پک کر تيار ہو گيا پر سنتو مہاراني نہ لوٹي۔
سارے گھر کي صفائيوں کے علاوہ غسلخانے بھي دھونے پڑے اور کمروں میں ٹاکي بھي پھيرني پڑي۔ ابھي کمر سيدھي کرنے کو ليٹي ہي تھي کہ ايک مہمان بي بي آگئيں۔ منے کي آنکھ مشکل سے لگي تھي۔ مہمان بي بي حسن اتفاق سے ذرا اونچا بولتي تھيں ۔ منا اٹھ بيٹھا اور اٹھتے ہي کھانسنے لگا۔ کالي کھانسي کا بھي ہر علاج کر ديکھا تھا پر نہ تو ہوميو پيتھيک سے آرام آيا نہ ڈاکٹري علاج سے۔ حکيموں کے کشتے اور معجون بھي رائيگاں گئے۔ بس ايک علاج رہ گيا تھا اور يہ علاج سنتو جمعدارني بتايا کرتي تھي۔ بي بي کسي کالے گھوڑے والے سے پوچھو کہ منے کو کيا کھلائيں۔ جو کہے سو کھلاؤ ۔ دنو ں ميں آرام آجائے گا۔
ليکن بات تو مہمان بي بي کي ہو رہي تھي۔ ان کے آنے سے سارے گھر والے اپنے اپنے کمروں سے نکل آئے اور گرميوں کي دوپہر میں خورشيد کو ايک عدد بوتل لينے کے لئے بھگا ديا گيا۔ ساتھ ہي اتنا سارا سودا اور بھي ياد آگيا کہ پورے پانچ روپے دينے پڑے۔ خورشيد پورے تين سال سے اس گھر میں ملازم تھي۔ جب آئي تھي تو بغير دوپٹے کے کھوکھے تک چلي جاتي تھي اور اب وہ بالوں ميں پلاسٹک کے کلپ لگانے لگي تھي۔ چوري چوري پيروں کو کيو ٹيکس اور منے کو پاؤڈر لگانے کے بعد اپنے چہرے پر بے بي پاؤڈر استعمال کرنے لگي تھي۔ جب خورشيد موٹي ململ کا دوپٹہ اوڑھ کر ہاتھ میں خالي سکوائش کي بوتل لے کر سراج کے کھوکھے پر پہنچي تو سڑکيں بے آبد سي ہو رہي تھيں۔ پانچ روپے کا نوٹ جو اس کے ہاتھ میں پتي سي بن گيا تھا نقدي والے ٹين کي ٹرے ميں دھرتي ہوئي خورشيد بولي۔ايک بوتل مٹي کا تيل لا دو۔۔ دو سات سو سات کے صابن۔ تين پان سادہ۔۔ چار ميٹھے۔۔۔ايک نلکي سفيد دھاگے کي۔ دو لولي پاپ اور ايک بوتل ٹھنڈي ٹھار سيون اپ کي۔
روڑي کوٹنے والا انجن بھي جا چکا تھا اور کولتار کے دو تين خالي ڈرم تازہ کوٹي ہوئ سڑک پر اوندھے پڑے تھے ۔ سڑک پر سے حدت کي وجہ سے بھاپ سي اٹھتي نطر آتي تھي۔ دائي کي لڑکي خورشيد کو ديکھ کر سراج کو اپنا گاؤں دھلا يا د آگيا۔ دھلے میں اسي وضع قطع، اسي چال کي سيندوري سے رنگ کي نو بالغ لڑکي حکيم صاحب کي ہوا کرتي تھي۔ ٹانسے کا برقعہ پہنتي تھي۔ انگريزي صابن سے منہ دھوتي تھي اور شايد خميرہ گاؤ زبان اور کشتہ مردا ريد بمعہ شربت صندل کے اتني مقدار میں پي چکي تھي کہ جہاں سے گزر جاتي سيب کے مربے کي خوشبو آنے لگتي ۔گاؤں ميں کسي کے گھر کوئي بيمار پڑ جاتا تو سراج اس خيال سے اس کي بيمار پرسي کرنے ضرور جاتا کہ شايد وہ اسے حکيم صاحب کے پاس دوا لينے کے لئے بھيج دے۔ جب کبھي ماں کے پيٹ میں درد اٹھتا تو سراج کو بہت خوشي ہوتي۔

اقتباس ”توبہ شکن

بي بي رو رو کر ہلکان ہو رہي تھي۔ آنسو بے روک ٹوک گالوں پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ مجھے کوئي خوشي راس نہیں آتي ۔ ميرا نصيب ہي ايسا ہے۔ جو خوشي ملتي ہے ايسي ملتي ہے گويا کوکا کولا کي بوتل میں ريت ملا دي ہو کسي نے۔۔



0 comments:

Post a Comment