Request
Zyada sy Zyada like [g+1] kr ky post ko Google pr recomment kry Shukria
29 Mar 2014
Meri shairi
29 Mar 2014
No comments
وہ منظرجو دیو مالائی کہانیوں کی طرح، الف لیلوی داستانوں کی طرح، مجھےشہرزاد بننے پر مجبور کردیتے ہیں،عمر و عیار کی زنبیل سےہر بار کچھ نہ کچھ نکل آتا ہے
گلی کےآخری کنارے پر بہنے والا پرنالہ
گھر کے پچھواڑے والا سوہانجنےکا درخت اپنے پھولوں اور پھلیوں سمیت وقت کا لقمہ بن چکا ہے، جس کی مٹی سےمجھےکبھی کبھی کبھار چونی اٹھنی مل جاتی تھی۔۔۔۔
پیپل کے درخت کے وہ پتے جن کی پیپی بنا کر میں شہنائی کی آواز سنا کرتی تھی،اس کی لٹکتی ہوئی جڑیں جو مجھےسادھو بن کر ڈراتی تھیں،
میری شاعری نیلگوں وسیع و عریض،
لارڈ بائرن اور ڈی ایچ لارنس کا یہ شہر،دھیرے دھیرے مجھے جکڑ تا رہا، ولیم ورڈز ورتھ کے ڈیفوڈل اپنی زرد زرد پلکوں
نوٹنگھم شہر کی چوک کے وسط میں لہراتا یونین جیک،
کریم کافی،
سونےکےنقش و نگار سے مزین کتھیڈرل، اونچےاونچے بلند و بالا گرجا گھر،مشرق کے سورج چاچا اور
وینس کی گلیوں میں گھومتے ہوئے،پانی میں کھڑی عمارتوں کی دیواروں پر کائی کا سبز رنگ ،مجھےسپارہ پڑھانے والی استانی جی کےآنگن میں لگی ترئی کی بیلوں کی طرح لپٹا۔
جولیٹ کےگھر کی بالکنی میں کھڑے ہو کر،مجھے اپنے گلی محلوں کے لڑ کوں کی سیٹیاں سنائی دیں۔
شاہ عبدالطیف بھٹائی کےمزار اور سہون شریف سےلائی ہوئی کچےکانچ کی چوڑیاں، مٹی کے رنگین گگھو گھوڑے
سنہری دھوپ کےساتھ بچپن کےاس گاؤں کی طرف لےجاتی ہےجہاں ہم گرمیوں کی چھٹیاں گزارنےجاتےتھے،
شاعری وہ نیل کنٹھ ہےجو صرف گاؤں میں نظر آتا تھا،
صفورے کےاس درخت کی گھنی چھاؤں میں بٹھادیتی ہےجو ہمارے باغیچےمیں تھا اور جس
شاعری سڑکوں پر چھوٹے بھائی کی موٹر سائیکل کی طرح فراٹےبھرتی ہےجس پر میں اس کےساتھ سند باد جیسی انگریزی فلمیں دیکھنے جاتی اور واپسی پر جادوگر کے سونگھائے ہوئے
ان تتلیوں اور مورنیوں کے پاس لےجاتی ہےجو چھوٹی بہنوں کی صورت،
ان چڑیوں کی چوں چوں سنواتی ہےجن کو میں دادی کی آنکھ بچا کر باسمتی چاول، مٹھیاں بھر بھر کے چپکے سے چھت پر کھلاتی اور ان کی پیار بھری ڈانٹ سنا کرتی تھی۔
شاعری میرے طوطے کی گردن کے گرد پڑا ہوا سرخ کنٹھا بن جاتی ہے
شاعری مجھےان اونچی اونچی محرابوں میں لےجاتی ہے جہاں میں اپنی حسین پھپھیوں کو کہانیوں کی شہَزادیاں سمجھا کرتی ،جن کے پائیں باغ میں لگا جامن کا درخت آج بھی یادوں پر نمک مرچ چھڑک کر کوئلوں اور پپیہوں کی طرح کوکتا ہے، شاعری بلقیس خالہ کا وہ پاندان یاد دلاتی ہے جس میں سپاری کےطرح ان لمحوں کےکٹے ہوئےٹکڑے رکھے ہیں جن میں ،میں ابن صفی صاحب سے حمیدی ،فریدی اور عمران کےآنے والے نئے ناول کی چھان بین کرتی ،
دل میں کسک کی کرچیاں چبھتی رہیںکتابیں اور موسیقی ساتھی بن گئیں
سو میں ایک سعادت مند بچی کی طرح پابندیوں والی کڑوی گولیاں نگلنےکی کوشش کر رہی ہوں ،کوہ نور ہیرےکی جستجو کب تک رہےگی ،کچھ خبر نہیں۔ ۔ ۔ !
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments:
Post a Comment